Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 42
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَ لٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُ١ؕ وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ١ۚ یُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۠   ۧ
لَوْ : اگر كَانَ : ہوتا عَرَضًا : مال (غنیمت) قَرِيْبًا : قریب وَّسَفَرًا : اور سفر قَاصِدًا : آسان لَّاتَّبَعُوْكَ : تو آپ کے پیچھے ہولیتے وَلٰكِنْ : اور لیکن بَعُدَتْ : دور نظر آیا عَلَيْهِمُ : ان پر الشُّقَّةُ : راستہ وَسَيَحْلِفُوْنَ : اور اب قسمیں کھائیں گے بِاللّٰهِ : اللہ کی لَوِ اسْتَطَعْنَا : اگر ہم سے ہوسکتا لَخَرَجْنَا : ہم ضرور نکلتے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ يُهْلِكُوْنَ : وہ ہلاک کر رہے ہیں اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے اِنَّهُمْ : کہ وہ لَكٰذِبُوْنَ : یقیناً جھوٹے ہیں
اگر کچھ مال لگے ہاتھ مل جانے والا ہوتا اور سفر بھی معمولی ہوتا تو یہ لوگ ضرور آپ کے ساتھ ہولیتے لیکن انہیں مسافت ہی دور دراز معلوم ہوئی،81 ۔ اور یہ لوگ عنقریب اللہ کی قسم کھا جائیں گے اگر ہم سے ہوسکتا تو ضرور تمہارے ساتھ چلتے یہ لوگ اپنی ہی جانوں کو ہلاک کررہے ہیں،82 ۔ حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں،83 ۔
81 ۔ (اور اس لئے یہیں رہ گئے) ذکر منافقین کا ہو رہا ہے جنہوں نے غزوۂ تبوک میں ہمراہ جانے سے انکار کردیا تھا۔ تبوک کی مسافت مدینہ منورہ سے 12 منزلوں کی تھی۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں سالک کے لئے اپنے اخلاص کے امتحان کا طریقہ درج ہے یعنی وہ یہ دیکھے کہ جس امر میں کوئی نفع دنیوی نہیں بلکہ مشقت ہی ہے۔ اس میں نفس کا کیا رنگ ہے، نفع دنیوی والے ہی اعمال کا کرتے رہنا دلیل اخلاص نہیں۔ 82 ۔ (جھوٹی قسمیں کھاکھا کر) (آیت) ” سیحلفون “۔ میں س یعنی عنقریب سے مراد یہ ہے کہ جب تم لوگ جہاد سے واپس آجاؤ گے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس طرح سالک کو اس کا نفس جھوٹے دعو وں سے دھوکا دیتا رہتا ہے اور طاعات کی راہ میں طرح طرح کے باطل عذرات تراشتا رہتا ہے۔ 83 ۔ (چنانچہ ان کو استطاعت تھی اور پھر بھی یہ نہ گئے)
Top