Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اللہ نے آپ کو معاف کردیا (لیکن) آپ نے ان کو اجازت کیوں دے دی تھی جب تک کہ آپ پر سچے لوگ ظاہر نہ ہوجاتے اور آپ جھوٹوں کو جان نہ لیتے،84 ۔
84 ۔ ذکر ان منافقین کا ہے، جو رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر وطن میں رہ گئے تھے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اجازت ملنے پر ان لوگوں کو جو گونہ بےفکری ہوگئی، یہ نہ ہوتی، بلکہ اگر آپ ﷺ کے بغیر اجازت یہ رہ جاتے تو ان کی خباثت اور زیادہ کھل کر رہتی (آیت) ” الذین صدقوا “۔ سے مراد مومنین صادقین ہیں جن کے پاس واقعی کوئی عذر تھا۔ (آیت) ” لم اذنت لھم “۔ اجازت سے مراد ہے جنگ میں شریک نہ ہونے اور وطن میں رہ جانے کی اجازت۔ یہ اجازت دے دینا کوئی معصیت نہ تھی، البتہ حالات وقت کے لحاظ سے اجازت نہ دنیا بہتر تھا۔ (آیت) ” عفا اللہ عنک “۔ لفظ عفو سے گناہ کا سرزد ہوچکنا لازم نہیں آتا۔ عفو جس طرح گناہ اور جرم کئے جاتے ہیں، اسی طرح معافی خلاف احتیاط اور خلاف اولی کارروائیوں پر بھی ملتی ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ جس طرح آیت میں حق تعالیٰ نے عفو کو شکایت پر مقدم فرمایا، یہی معاملہ حق تعالیٰ کا باطن میں مقبولین کے ساتھ رہا کرتا ہے کہ عین عتاب میں بھی اپنا لطف دکھاتے رہتے ہیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے یہ بھی فرمایا کہ (آیت) ” لم اذنت لھم “۔ الخ میں یہ شیوخ کو یہ تعلیم ہے کہ مریدوں کے عذر قبول کرنے میں احتیاط وبیداری سے کام لیں کہ آیا وہ عذر واقعی و صحیح ہے بھی۔
Top