Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 47
لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ١ۚ وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
لَوْ : اگر خَرَجُوْا : وہ نکلتے فِيْكُمْ : تم میں مَّا : نہ زَادُوْكُمْ : تمہیں بڑھاتے اِلَّا : مگر (سوائے) خَبَالًا : خرابی وَّ : اور لَا۟اَوْضَعُوْا : دوڑے پھرتے خِلٰلَكُمْ : تمہارے درمیان يَبْغُوْنَكُمُ : تمہارے لیے چاہتے ہیں الْفِتْنَةَ : بگاڑ وَفِيْكُمْ : اور تم میں سَمّٰعُوْنَ : سننے والے (جاسوس) لَهُمْ : ان کے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
اگر یہ لوگ تمہارے شامل ہو کر چلتے تو تمہارے درمیان فساد ہی بڑھاتے یعنی تمہارے درمیان فتنہ پردازی کی فکر میں دوڑے دوڑے پھرتے،89 ۔ اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس (اب بھی) موجود ہیں اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے،90 ۔
89 ۔ مطلب یہ ہوا کہ ان منافقین کا لشکر اسلام کے ساتھ نہ جانا مصالح تکوینی کے اعتبار سے بھی اچھا ہی ہوا، یہ ساتھ جاتے تو سوا اس کے اور کیا کرتے کہ لگائی بجھائی کرکے آپس میں تفریق ڈلواتے۔ جھوٹی خبریں اڑا کر پریشان کرتے، اور دشمن کا خوف ورعب دلوں میں بٹھاتے ، (آیت) ” فیکم “۔ یعنی تمہارے درمیان شامل ہوکر، اے فی جیشکم وفی جمعکم (جمل) قیل فی بمعنی مع اے معکم (جمل) ولا۔ میں وعطف تفسیری کے لئے ہے۔ 90 ۔ (چنانچہ اس سے بھی خوب واقف ہے کہ ان کے جو لوگ تمہارے ساتھ لگے ہوئے ہیں وہ چونکہ اہل الرائے نہیں، اس لئے ان کا شامل رہنا چنداں مضر بھی نہیں) (آیت) ” سمعون “۔ کے معنی اس سیاق میں جاسوس کے یا ٹوہ لینے والوں کے ہیں۔ اے جواسیس للکفار (ابن عباس ؓ المراد فیکم عیون لھم ینقلون الیھم ما یسمعون منکم (کبیر۔ عن مجاہد وابن زید) وفیکم مخبرون لھم یؤدون الیھم ما یسمعون منکم وھم الجواسیس (معالم عن مجاہد)
Top