Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 78
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِۚ
اَلَمْ : کیا يَعْلَمُوْٓا : وہ جانتے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے سِرَّهُمْ : ان کے بھید وَنَجْوٰىهُمْ : اور ان کی سرگوشی وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عَلَّامُ : خوب جاننے والا الْغُيُوْبِ : غیب کی باتیں
کیا انہیں خبر نہیں کہ اللہ کو ان کے (دل کے) رازکا اور ان کی سرگوشی کا (سب کا) علم ہے اور یہ کہ اللہ چھپی باتوں سے خوب واقف ہے،144 ۔
144 ۔ (تو ان کا ظاہری اسلام اور نقلی اظہار اطاعت ان کے کیا کام آسکتا ہے ؟ ) روایات میں آتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد ثعلبہ بن حاطب زکوٰۃ لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تیری زکوٰۃ قبول کرنے سے منع کردیا ہے۔ اس نے بہت ہائے واویلا کی مگر آپ ﷺ نے قبول نہ فرمائی، اس کے بعد وہ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ تینوں کی خلافت میں زکوٰۃ پیش کرتا رہا اور ہر دفعہ وہ رد ہوتی رہی یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ ” احقر کہتا ہے کہ اس کا زکوٰۃ لانا اور نہ لینے پر واویلا کرنا خلوص سے نہ تھا۔ بلکہ دفع عار وبدنامی کے لئے تھا۔ کیونکہ (آیت) ’ اعقبھم “۔ الخ سے اس کا دائما کافر رہنا معلوم ہوگیا پھر خلوص کا احتمال کب ہے اور شاید ممانعت قبول سے مراد حضور ﷺ کی یہی ہو، اس طرح کہ قبول صدقہ کے لئے ایمان شرط ہے اور شرط کا انتفاء مخصوص ہے پس مشروط بھی منہی عنہا ہوگا۔ اور ممکن ہے کہ مستقل وحی بھی اس میں نازل ہوئی ہو۔ اور خلفائے راشدین ؓ کا قبول نہ کرنا آپ ﷺ کے قبول نہ فرمانے کی وجہ سے تھا۔ “ (تھانوی (رح) (آیت) ” الم یعلموا “۔ ہمزہ یا تو انکار تو بیخ وتہدید کے موقع پر آتا ہے کہ ان کی جرأتیں اتنی بڑھتی گئیں کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور یا پھر اس تنبیہ کے لئے کہ اللہ اس امر پر ان سے مواخذہ شدید کرنے والا ہے۔ والھمزۃ اماللانکار والتوبیخ والتھدید اے الم یعلموا ذلک حتی اجترؤا علی ما اجترء وا علیہ من العظائم او للتقریر والتنبیہ علی ان اللہ سبحانہ مؤاخذھم ومجازیھم بما علم من اعمالھم (روح) (آیت) ” ان اللہ یعلم سرھم ونجوھم “۔ ان لوگوں کی سرگوشیاں اور ان کی راز داریاں چونکہ وقتی چیزیں اور حادث تھیں اس لیے یہاں علم کا ذکر صیغہ فعل (مضارع) کے ساتھ فرمایا گیا۔ وفی ایراد العلم المتعلق بسرھم ونجوھم الحادثین شیئا فشیئا بصیغۃ الفعل الدال علی الحدوث والتجدد (روح) (آیت) ” ان اللہ علام الغیوب “۔ یہاں علم کا تعلق چونکہ بندوں سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ سے ہے، اس لئے صیغہ بھی اسم کا لایا گیا دوام کے ظاہر کرنے کو اور پھر اسم بھی صیغہ مبالغہ کا ؟ والعلم المتعلق بالغیوب الکثیرۃ بصیغۃ الاسم الدال علی الدوام والمبالغۃ من الفخامۃ والجزالۃ مالایخفی (روح)
Top