Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 92
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ١۪ تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ
وَّلَا : اور نہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اِذَا : جب مَآ اَتَوْكَ : جب آپکے پاس آئے لِتَحْمِلَهُمْ : تاکہ آپ انہیں سواری دیں قُلْتَ : آپ نے کہا لَآ اَجِدُ : میں نہیں پاتا مَآ اَحْمِلُكُمْ : تمہیں سوار کروں میں عَلَيْهِ : اس پر تَوَلَّوْا : وہ لوٹے وَّاَعْيُنُهُمْ : اور ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ رہی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو (جمع) حَزَنًا : غم سے اَلَّا يَجِدُوْا : کہ وہ نہیں پاتے مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں
اور نہ ان لوگوں پر (کوئی الزام ہے) کہ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری دے دین اور آپ کہتے ہیں کہ میرے پاس تو کچھ ہے نہیں جس پر تمہیں سوار کردوں، تو وہ واپس جاتے ہیں اس حال میں کہ ان کی آنکھوں سے آنسورواں ہوتے ہیں اس غم میں کہ انہیں کچھ میسر نہیں جو وہ خرچ کریں،167 ۔
167 ۔ (سامان جہاد میں) آیت میں ان مخلص، معذور دیہاتیوں کے مزید اخلاص پر گواہی مل رہی ہے۔ (آیت) ” لتحملھم “ محاورہ میں اس کے معنی یہی ہیں کہ آپ ان کے لئے سواری کا انتظام کردیں۔ احملنی اے اعطنی ظھرا ارکبہ (تاج) (آیت) ” اعینھم تفیض من الدمع “۔ یہ طرز ادا بلیغ تر ہے۔ یفیض دمعھا سے، کہ اس میں آنکھ ہی کو بہتا ہوا آنسو بنادیا گیا ہے۔ ھو ابلغ من یفیض دمعھا لان العین فعلت کان کلھا دمع فائض (کشاف)
Top