Tafseer-e-Mazhari - Yunus : 36
وَ مَا یَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا١ؕ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
وَمَا يَتَّبِعُ : اور پیروی نہیں کرتے اَكْثَرُھُمْ : ان کے اکثر اِلَّا ظَنًّا : مگر گمان اِنَّ : بیشک الظَّنَّ : گمان لَا يُغْنِيْ : نہیں کام دیتا مِنَ : سے (کام) الْحَقِّ : حق شَيْئًا : کچھ بھی اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور ان میں سے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں۔ اور کچھ شک نہیں کہ ظن حق کے مقابلے میں کچھ بھی کارآمد نہیں ہوسکتا۔ بےشک خدا تمہارے (سب) افعال سے واقف ہے
وما یتبع اکثرھم الا ظنًا اور ان میں سے اکثر لوگ (اپنے عقائد میں) صرف گمان پر چلتے ہیں۔ ان کے گمان کی تائید نہ عقلی دلائل سے ہوتی ہے نہ نقلی براہین سے۔ محض بیہودہ خیالات اور غلط قیاس انہوں نے قائم کر رکھے ہیں۔ غائب کو حاضر پر اور خالق کو مخلوق پر ایک موہوم نقطۂ اشتراک کی وجہ سے قیاس کرنا ‘ ایک بےحقیقت گمان سے زائد نہیں۔ اکثر سے مراد سب ہی کافر ہیں (کیونکہ سب ہی کافر توہم پرست ہیں اور شرک کی کوئی معقول دلیل کسی کے پاس بھی نہیں ہے) یا اکثر سے وہ لوگ مراد ہیں جو تمیز اور غور و فکر کے مدعی ہیں اور کو رانہ تقلید کے منکر ہیں (کیونکہ جب اہل دانش وتمیز وہم کو فہم اور گمان کو یقین سمجھے ہوئے ہیں تو عام کافروں کی توہم پرستی تو بدرجۂ اولیٰ واضح ہے ‘ وہ تو مدعی دانش بھی نہیں ہیں) ۔ ان الظن لایغنی من الحق شیءًا بلاشبہ دماغی تک بندی ‘ علم اور اعتقاد حق کے مقابلہ میں بالکل بیمار ہے۔ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ‘ یا حق کا کوئی حصہ اس سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ اعتقادی مسائل میں محض دماغی تک بندی اور دوسروں کی (کورانہ) تقلید جائز نہیں بلکہ عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں علم یقینی حاصل کرنا ضروری ہے۔ ان اللہ علیم بما یفعلون۔ ان کی حرکتوں سے اللہ بخوبی واقف ہے۔ اس میں وعید ہے ان لوگوں کیلئے جو عقلی اور نقلی دلائل سے منہ موڑ کر تو ہم و تقلید کا اتباع کرتے ہیں۔
Top