Tafseer-e-Mazhari - Hud : 71
وَ امْرَاَتُهٗ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ١ۙ وَ مِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ
وَامْرَاَتُهٗ : اور اس کی بیوی قَآئِمَةٌ : کھڑی ہوئی فَضَحِكَتْ : تو وہ ہنس پڑی فَبَشَّرْنٰهَا : سو ہم نے اسے خوشخبری دی بِاِسْحٰقَ : اسحٰق کی وَ : اور مِنْ وَّرَآءِ : سے (کے) بعد اِسْحٰقَ : اسحق يَعْقُوْبَ : یعقوب
اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی
وامراتہ قآئمۃ اور ابراہیم کی بیوی (سارہ بنت ہاران بن ناخور جو حضرت ابراہیم کے چچا کی بیٹی تھی) کھڑی ہوئی تھی۔ پردہ کے پیچھے سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم بیٹھے ہوئے تھے اور بیوی کھڑی مہمانوں کی خدمت کر رہی تھی۔ فضحکت پس۔ حضرت سارہ بشارت سن کر ہنس پڑیں __ مجاہد اور عکرمہ نے ترجمہ کیا ہے : اس کو اسی وقت حیض ہوگیا۔ عرب بولتے ہیں : ضَحِکَتِ الارنب خرگوش کو حیض ہوگیا۔ قاموس میں بھی یہی ہے۔ ضحکت السمرۃُ کیکر کے درخت سے گوند بہنے لگا۔ اکثر اہل تفسیر کے نزدیک اس جگہ ضحکت سے مراد ہنس دینا ہی ہے۔ ہنسنے کا سبب کیا تھا ‘ علماء نے اس کے مختلف اسباب بیان کئے ہیں۔ 1) خوشی کی وجہ سے ہنس پڑی تھیں۔ فرشتوں نے جب لا تخف کہا تو حضرت ابراہیم کا خوف بھی جاتا رہا اور بیوی کا بھی۔ اس سے خوشی ہوئی اور خوشی سے ہنسی۔ 2) سدی نے کہا : ہنسی کا سبب تعجب تھا۔ حضرت ابراہیم نے کھانا پیش کیا ‘ مہمانوں نے نہیں کھایا۔ حضرت ابراہیم کو ان کی طرف سے خوف ہوا ‘ خیال کیا کہ کہیں یہ چور نہ ہوں۔ پوچھا : کیوں نہیں کھاتے ؟ مہمانوں نے کہا : ہم بغیر قیمت (ادا کئے) نہیں کھاتے۔ حضرت ابراہیم نے کہا : تو اس کی قیمت دے دو ۔ مہمانوں نے پوچھا : قیمت کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم نے کہا : کھانے سے پہلے بسم اللہ کہنا اور کھانے کے بعد الحمد اللہ کہنا۔ یہ جواب سن کر حضرت جبرئیل نے حضرت میکائل کی طرف دیکھا اور کہا : اس شخص کو حق ہے کہ اللہ اس کو اپنا خلیل بنا لے۔ اس کے بعد بھی حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ نے مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہ دیکھے تو حضرت سارہ تعجب سے ہنس دیں اور بطور تعجب کہا : ہم ان مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں ‘ ان کے اعزاز میں کھانا پیش کر رہے ہیں ‘ تعجب ہے کہ یہ نہیں کھاتے۔ 3) قتادہ نے کہا : اس بات پر ہنسیں کہ قوم لوط پر عذاب قریب آگیا اور وہ غفلت میں پڑی ہے۔ 4) بیوی کو اس بات پر ہنسی آئی کہ میں نے حضرت ابراہیم سے جو بات پہلے کہی تھی ‘ وہ ہی آخر صحیح نکلی۔ بیوی نے حضرت ابراہیم سے کہا تھا کہ لوط کو اپنے پاس بلا لیجئے ‘ مجھے نظر آ رہا ہے کہ اس کی قوم پر عذاب آئے گا۔ 5) مقاتل اور کلبی نے کہا : بیوی کو اس بات پر ہنسی آئی کہ یہ تو تین شخص ہیں جن سے حضرت ابراہیم ڈر رہے ہیں اور حضرت ابراہیم کے ساتھ تمام نوکر چاکر ‘ خدمت گار موجود ہیں ‘ پھر ڈرنے کے کیا معنی۔ 6) بیٹے اور پوتے کی بشارت اور قوم لوط کے ہلاک ہونے کی خبر سن کر خوشی سے ہنس پڑیں۔ 7) حضرت ابن عباس اور وہب کا قول ہے کہ اس بات پر ان کو تعجب ہوا کہ میرا شوہر بوڑھا اور میں بوڑھی ‘ ایسی حالت میں اولاد ہونا عجیب بات ہے۔ اور عبارت میں کچھ تقدیم و تاخیر ہے وامْرَأَتُہٗ قَآءِمَۃٌکے بعد ہے۔ فبشرنھا باسحٰق ومن ورآء اسحٰق یعقوب (علیہ السلام) پس ہم نے عورت کو اسحاق کے پیدا ہونے کی اور اسحاق کے پیچھے (اسحق کے بیٹے) یعقوب کے پیدا ہونے کی بشارت دی۔ اس کے بعد ہے فَضَحِکَتْ یعنی یہ بشارت سن کر وہ ہنس پڑیں۔ عورت کو خصوصیت کے ساتھ بشارت دینے کی تین وجوہ تھیں : 1) یہ بتانا مقصود تھا کہ اسحاق و یعقوب تیری نسل سے ہوں گے ‘ کسی دوسری عورت سے حضرت ابراہیم کی یہ نسل نہ ہوگی۔ 2) اولاد ہونے کی خوشی مردوں سے زیادہ عورتوں کو ہوتی ہے۔ 3) بیوی بانجھ تھی اور اولاد سے ناامید ‘ اسلئے اس کو بشارت دی گئی کہ تیرے لڑکا ہوگا اور پوتا بھی تیرے سامنے ہی ہوجائے گا ‘ تو پوتے کا منہ بھی دیکھ لے گی۔ جب بیوی کو اولاد کی بشارت دی گئی تو اس نے منہ پیٹ لیا اور کہا :
Top