Tafseer-e-Mazhari - Hud : 89
وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ١ؕ وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم لَا يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہیں نہ کمواواے ( آمادہ نہ کرے) شِقَاقِيْٓ : میری ضد اَنْ : کہ يُّصِيْبَكُمْ : تمہیں پہنچے مِّثْلُ : اس جیسا مَآ اَصَابَ : جو پہنچا قَوْمَ نُوْحٍ : قوم نوح اَوْ : یا قَوْمَ هُوْدٍ : قوم ہود اَوْ : یا قَوْمَ صٰلِحٍ : قوم صالح وَمَا : اور نہیں قَوْمُ لُوْطٍ : قوم لوط مِّنْكُمْ : تم سے بِبَعِيْدٍ : کچھ دور
اور اے قوم! میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے کہ جیسی مصیبت نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی ویسی ہی مصیبت تم پر واقع ہو۔ اور لوط کی قوم (کا زمانہ تو) تم سے کچھ دور نہیں
ویقوم لا یجر منکم شقاقي ان یصیبکم مثل ما اصاب قوم نوح اوقوم ھود او قوم صالح اور اے میری قوم ! مجھ سے عداوت و مخالفت کا تمہارے لئے کہیں یہ نتیجہ نہ نکلے کہ جو (عذاب) قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر آیا تھا ‘ ویسا ہی (عذاب) تم پر آجائے۔ یعنی غرق ہوجانے کا یا طوفان کا یا زلزلہ اور کڑک کا عذاب تم پر کہیں نہ آجائے۔ شقاق کا معنی ہے : عداوت اور مخالفت۔ وما قوم لوط منکم ببعید اور قوم لوط (کا زمانہ) تم سے دور نہیں ہے۔ یعنی عذاب سے ہلاک ہونے والی قوموں میں سب سے قریب ترین زمانہ حضرت لوط کی قوم کا ہے ‘ تم سمجھ لو کہ (پیغمبر کی مخالفت کی وجہ سے) کیسے عذاب نے ان کو ہلاک کردیا یا یہ مراد ہے کہ قوم لوط کی (اجڑی ہوئی) بستیاں تم سے دور نہیں ہیں ‘ تمہارے ملک کے متصل ہیں۔ یا یہ مراد ہے کہ شرک و معاصی کی وجہ سے مستحق عذاب ہونے میں قوم لوط تم سے بعید نہیں تھی (تم دونوں میں زیادہ تفاوت نہیں) لفظ قریب و بعید اور قلیل و کثیر میں مذکر مؤنث برابر ہیں ‘ دونوں کے لئے ان کا استعمال ہوتا ہے ‘ اس لئے بعید کو بصیغہ مفرد لانے میں کوئی خرابی نہیں۔
Top