Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 93
عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
عَمَّا : اس کی بابت جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
ان کاموں کی جو وہ کرتے رہے
عما کانوا یعملون۔ اعمال میں گناہ بھی داخل ہیں اور کفر بھی اور قرآن کی تکذیب بھی اور اس کو جادو قرار دینا بھی۔ سوال کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہم ان سے بازپرس کریں گے اور ان کو ان کے کئے کی سزا بھی دیں گے۔ بغوی نے محمد بن اسماعیل بخاری کا قول نقل کیا ہے کہ متعدد علماء کے نزدیک عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ سے مراد ہے : لاَ اِلٰہَ الاَّ اللہ (یعنی لاَ اِلٰہَ الاَّ اللہ کی ہم ان سے بازپرس کریں گے) ۔ ترمذی ‘ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ اس آیت کے ذیل میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم ان سے بازپرس کریں گے کلمۂ لاَ اِلٰہَ الاَّ اللہ کے متعلق۔ مسلم نے حضرت ابو برزہ اسلمی کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (پل) صراط سے کسی بندہ کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں گے (یعنی کوئی شخص بھی اس وقت تک پل صراط سے پار نہیں ہوگا) جب تک اس سے چار باتیں نہ پوچھ لی جائیں گی۔ اس وقت سوال کیا جائے گا عمر کے متعلق کہ کس کام میں ختم کی اور (سوال ہوگا) جسم کے متعلق کہ کس کام میں اس کو پرانا کیا (یعنی جسمانی طاقتیں کس کس کام میں صرف کیں) اور (سوال ہوگا) علم کے متعلق کہ علم کے بعد کیا عمل کیا اور (سوال ہوگا) مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ ترمذی اور ابن مردویہ نے یہ حدیث اسی طرح ابن مسعود سے بھی بیان کی ہے۔ اصبہانی نے ترغیب میں اور طبرانی نے (الاوسط میں) حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علم (سکھانے) میں باہم خیرخواہی سے کام لو۔ کوئی کسی سے علم کو پوشیدہ نہ رکھے۔ علم میں خیانت کرنی ‘ مال میں خیانت کرنے سے زیادہ سخت ہے۔ اللہ اس کی بھی تم سے ضرور بازپرس کرے گا۔ ابو نعیم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ جو قدم بھی (کسی مقصد کیلئے) اٹھاتا ہے ‘ اللہ اس مقصد کی اس سے ضرور بازپرس کرے گا۔ طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص لوگوں کی امامت کرے ‘ اس کو اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور یہ جان لینا چاہئے کہ وہ (مقتدیوں کا) ذمہ دار ہے اور اس ذمہ داری کے متعلق اس سے بازپرس ہوگی۔ اگر اس نے امامت اچھی (طرح ‘ صحیح) کی ہوگی تو اس کے پیچھے والوں کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا اور اگر کچھ کمی ہوگی (یعنی نماز میں کچھ نقص ہوا ہوگا) تو اس کا گناہ بھی امام پر پڑے گا۔ ابو نعیم نے حلیہ میں اور ابن ابی حاتم نے حضرت معاذ بن جبل کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : معاذ ! مؤمن سے قیامت کے دن اس کے تمام کاموں کی بازپرس ہوگی یہاں تک کہ آنکھوں میں سرمہ (لگانے) کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔ بیہقی اور ابن ابی الدنیا نے حسن کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بندہ کوئی خطبہ دیتا ہے ‘ اللہ اس سے اس خطبہ اور خطبہ کی اصل مراد کے متعلق ضرور بازپرس کرے گا۔ یہ حدیث مرسل ہے (حسن بصری تابعی ہیں ‘ صحابی کا نام روایت میں نہیں ہے) ۔ ابن ابی حاتم نے انفع بن عبد اللہ کلاعی کا قول نقل کیا ہے کہ جہنم کے سات پل ہیں اور صراط ان کے اوپر ہے۔ تمام مخلوق کو پہلے پل پر روک لیا جائے گا۔ حکم ہوگا : ان کو ٹھہرا لو۔ ان سے باز پرس کی جائے گی ‘ یہاں تک کہ نماز کی حساب فہمی اور بازپرس ہوگی۔ ہلاک ہونے والا ہلاک ہوجائے گا اور نجات پانے والا نجات پا جائے گا۔ دوسرے پل پر پہنچیں گے تو امانت کے بابت سوال ہوگا کہ کیسے ادا کی اور کیسے اس میں خیانت کی۔ یہاں بھی تباہ ہونے والا تباہ ہوجائے گا اور نجات پانے والا نجات پاجائے گا۔ پھر تیسرے پل پر پہنچیں گے تو رشتہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ سلسلۂ قرابت کو جوڑا یا توڑا۔ یہاں بھی مرنے والا مرے گا اور بچنے والا بچ جائے گا۔ رحم اس روز نیچے کی طرف آویختہ ہوگا اور عرض کرے گا : اے اللہ ! جس نے مجھے ملائے رکھا ہو تو بھی اس کو (اپنے سے) ملا لے اور جس نے مجھے توڑا ہو تو بھی اس سے قطع تعلق کرلے۔ ابن ماجہ نے حضرت ابو سعید خدری کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت ابو سعید نے فرمایا : میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : قیامت کے دن اللہ بندہ سے سوالات کرے گا ‘ یہاں تک کہ فرمائے گا : جب تو نے بری بات دیکھی تو اس کا رد کیوں نہیں کیا ؟ اس وقت اللہ خود اس کے دل میں صحیح جواب ڈال دے گا۔ بندہ عرض کرے گا : میرے رب ! میں تجھ سے امید لگائے ہوئے تھا اور لوگوں سے مجھے ڈر تھا (اسلئے خاموش رہا اور اس کام کو دل سے برا جانتا رہا) ۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک (ذمہ دار) نگران ہے اور جس کی نگرانی اس کے سپرد ہے ‘ اس کے متعلق بازپرس اس سے کی جائے گی۔ حاکم سب لوگوں کا (ذمہ دار اور) نگراں ہے ‘ اس سے اس کی رعیت کی بازپرس کی جائے گی۔ مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے ‘ اس سے گھر والوں کے متعلق بازپرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر والوں کی اور اس کے بچوں کی ذمہ دار ہے ‘ اس سے (اس کے حلقۂ اثر میں رہنے والی) اس کی رعیت کے متعلق بازپرس ہوگی۔ غلام (یعنی خادم) اپنے آقا کے مال کا نگران ہے ‘ اس سے آقا کے مال کے متعلق بازپرس ہوگی۔ غرض تم میں سے ہر ایک نگراں (یعنی ذمہ دار) ہے اور جس کی نگرانی اس کے سپرد ہے ‘ اس کے متعلق اس سے بازپرس ہوگی۔ اس موضوع کی احادیث حضرت انس کی روایت سے ابن حبان ‘ ابو نعیم اور طبرانی نے بھی بیان کی ہیں۔ طبرانی نے الکبیر میں حضرت مقدام کی روایت سے نقل کیا ہے ‘ حضرت مقدام نے فرمایا : میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے : جو شخص بھی کسی قوم پر (مسلط ‘ پیشوا ‘ حاکم ‘ لیڈر وغیرہ) ہوگا ‘ قیامت کے دن وہ اس قوم کے آگے آگے جھنڈا اٹھائے ہوگا اور (وہ) لوگ اس کے پیچھے ہوں گے۔ قوم کے متعلق اس سے بازپرس کی جائے گی اور قوم والوں سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ طبرانی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو امیر دس آدمیوں کا بھی حاکم ہوگا ‘ قیامت کے دن اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق بازپرس ہوگی (سوال کے سلسلہ کی احادیث بکثرت آئی ہیں) ۔ ایک شبہ آیت لَنَسْءَلَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ اور اس کے ہم معنی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک سے اس کے اعمال کی بازپرس ضرور ہوگی لیکن آیت فَیَوْمَءِذٍ لاَّ یُسْءَلُ عَنْ ذَ نْبِہٖٓم اِنْسٌ وَلاَجَآنٌ سے سوال کی نفی ہوتی ہے۔ بظاہر دونوں میں تضاد ہے۔ ازالہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ سوال نہ ہوگا کہ تم نے یہ عمل کیا یا نہیں۔ اللہ کو اس سوال کی ضرورت نہیں ‘ اس کو کسی عمل کے کرنے نہ کرنے کا کامل علم ہے ‘ بلکہ بازپرس اس بات کی ہوگی کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ بیہقی نے ابو طلحہ کی سند سے بھی حضرت ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے اور قطرب نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوال کی دو قسمیں ہیں : (1) علم حاصل کرنے کیلئے ‘ جس کو استفہامیہ سوال کہا جاتا ہے۔ (2) زجر و توبیخ کیلئے ___ لاَّ یُسْءَلُ عَنْ ذَ نْبِہٖٓم میں استفہامیہ سوال کی نفی کی گئی ہے اور لَنَسْأَ لَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ میں زجر و توبیخ کیلئے سوال کرنے کی صراحت ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس کا ایک اور قول نقل کیا ہے ‘ حضرت ابن عباس نے فرمایا : قیامت کا دن بہت طویل ہوگا جس میں متعدد مواقف راہ اور روکے جانے کے مقامات ہوں گے۔ بعض مقامات پر اعمال کی بازپرس ہوگی ‘ بعض مقامات پر کوئی سوال نہ ہوگا۔ یہی تاویل ان آیات کی ہے جن میں بولنے اور نہ بولنے کا تضاد معلوم ہوتا ہے۔ ایک آیت ہے : ھَذَا یَوْمُ یَنْطِقُوْنَ یہ ایسا دن ہوگا کہ لوگ کچھ نہ بول سکیں گے۔ دوسری آیت ہے : یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ قیامت کے دن تم رب کے پاس جھگڑا کرو گے (کذا اخرج الحاکم) ۔
Top