Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 106
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
مَنْ : جو كَفَرَ : منکر ہوا بِاللّٰهِ : اللہ کا مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِيْمَانِهٖٓ : اس کے ایمان اِلَّا : سوائے مَنْ : جو اُكْرِهَ : مجبور کیا گیا وَقَلْبُهٗ : جبکہ اس کا دل مُطْمَئِنٌّۢ : مطمئن بِالْاِيْمَانِ : ایمان پر وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّنْ : جو شَرَحَ : کشادہ کرے بِالْكُفْرِ : کفر کے لیے صَدْرًا : سینہ فَعَلَيْهِمْ : تو ان پر غَضَبٌ : غضب مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ عَظِيْمٌ : بڑا عذاب
جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے۔ تو ایسوں پر الله کا غضب ہے۔ اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا
من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان ولکن من شرح بالکفر صدرا فعلیھم غضب من اللہ ولھم عذاب عظیم جو لوگ ایمان لانے کے بعد (لوٹ کر) اللہ کے (یعنی اس کی ذات ‘ صفات یا قیامت و نبوت کے) ساتھ کفر کرنے لگیں اور جی کھول کر (دل کی خوشی کے ساتھ) کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہوگا اور ان کو بڑے دکھ کی سزا ہوگی۔ ہاں جو لوگ کفر کرنے پر مجبور کئے گئے ہوں اور ان کا دل ایمان پر مطمئن ہو (اور زبان سے کلمات کفر بمجبوری کہہ گذریں) وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس آیت کا نزول حضرت عمار بن یاسر کے حق میں ہوا۔ مشرکوں نے حضرت عمار کو ‘ ان کے باپ حضرت یاسر کو ‘ ان کی ماں حضرت سمیہ کو اور حضرت صہیب و حضرت بلالو حضرت خبیب و حضرت سالم کو پکڑ کر سخت ترین جسمانی دکھ دئیے۔ حضرت سمیہ کو دو اونٹوں کے درمیان باندھ دیا گیا (ایک ٹانگ ایک اونٹ سے ‘ دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے) اور شرمگاہ میں نیزہ ڈال کر چیر دیا گیا۔ حضرت یاسر کو بھی قتل کردیا گیا۔ اسلام میں سب سے اوّل یہی دونوں شہید ہوئے۔ حضرت عمار نے بمجبوری وہ بات زبان سے نکال دی جو مشرک چاہتے تھے۔ قتادہ نے کہا : بنی مغیرہ نے حضرت عمار کو پکڑ کر چاہ میمون میں غوطے دئیے اور کہا : محمد ﷺ کا انکار کر۔ حضرت عمار نے وہی بات کہہ دی جو مشرک چاہتے تھے۔ مگر آپ کا دل اس بات سے نفرت کرتا تھا ‘ دل کو انکار رسالت گوارا نہ تھا۔ کسی نے جا کر رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دے دی کہ عمار کافر ہوگیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ہرگز نہیں۔ عمار کے اندر تو چوٹی سے قدم تک ایمان بھرا ہوا ہے ‘ اس کے خون اور گوشت میں ایمان سرایت کر گیا ہے۔ آخر حضرت عمار ‘ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں روتے ہوئے حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا بات ہے ؟ عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! بات بری ہے ‘ میں نے آپ کو برا کہہ دیا اور (انکار کے طور پر) آپ کا ذکر کیا۔ فرمایا : اس وقت تمہارے دل کی کیا حالت تم کو محسوس ہو رہی تھی ؟ عرض کیا : دل تو ایمان پر مطمئن تھا۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے حضرت عمار کے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا : اگر وہ دوبارہ تمہارے ساتھ ایسی حرکت کریں تو تم دوبارہ (بھی یہی کفریہ الفاظ) لوٹا سکتے ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ثعلبی اور واحدی نے بھی اسی طرح یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ ابن ابی حاتم نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ کو ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو مشرکوں نے حضرت بلال ‘ حضرت خبیب اور حضرت عمار کو پکڑ لیا۔ حضرت عمار نے تقیہ کر کے وہ بات کہہ دی جو مشرکوں کو پسند تھی۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو واقعہ بیان کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : (کلمات کفر) کہنے کے وقت تمہارے دل کی کیا حالت تھی ؟ عرض کیا : دل تو آپ کے قول پر مطمئن تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بغوی نے لکھا ہے : ابن ابی حاتم نے مجاہد کا قول بیان کیا ہے کہ اس آیت کا نزول مکہ کے چند مسلمانوں کے حق میں ہوا تھا۔ بعض صحابہ نے (مدینہ سے) ان کو لکھا تھا کہ مکہ چھوڑ آؤ۔ جب تک ہجرت کر کے ہمارے پاس نہ آجاؤ گے ‘ ہم تم کو اپنے میں شمار نہیں کریں گے۔ اس تحریر پر وہ لوگ مکہ چھوڑ کر مدینہ کو چل دئیے۔ راستہ میں ان کو قریش نے پکڑ لیا اور سخت دکھ دئیے۔ مجبوراً بنفرت خاطر ناگواری کے ساتھ کلمات کہہ دئیے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ مقاتل نے بیان کیا کہ عامر بن حضرمی کے غلام جبر کے حق میں آیت کا نزول ہوا۔ ان کے آقا نے ان پر زبردستی کی تھی ‘ مجبوراً جبر نے کلمات کفر کہہ دیئے تھے۔ بغوی نے لکھا ہے : پھر جبر کا آقا بھی مسلمان ہوگیا اور اسلام میں پختہ رہا اور جبر کو ساتھ لے کر اس نے بھی مدینہ کو ہجرت کرلی۔ ایمان پر دل کے مطمئن ہونے کا یہ مطلب ہے کہ عقیدہ میں کوئی تغیر نہیں آیا ‘ دل ایمان پر قائم رہا۔ یہ جملہ بتارہا ہے کہ دل سے سچا جاننا ایمان کا رکن ضروری ہے (خالی شہادت ایمان بغیر دلی عقیدہ کے اللہ کے نزدیک ناقابل اعتبار ہے) ۔ کفر کیلئے سینہ کے کشادہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ دل نے کفر کو پسند کرلیا اور بخوشی کفر کو قبول کرلیا۔ اکراہ کی تحقیق کسی کو ایسے کام پر آمادہ کرنا جس کو وہ دل سے گوارا نہ کرتا ہو ‘ اکراہ ہے۔ اکراہ کی دو صورتیں ہیں : (1) کسی کو کسی ناگوار کام کے کرنے پر اس طرح آمادہ کرنا کہ اگر وہ انکار کرلے تو اس کو اذیت اور دکھ اٹھانا پڑجائے لیکن یہ ایذاء اور دکھ اس کو بےاختیار نہ بنا دے۔ مثلاً انکار کی صورت میں مارنا ‘ قید کردینا۔ ظاہر ہے کہ پٹنے اور قید ہوجانے کے بعد بھی مضروب اور قیدی بےاختیار نہیں ہوجاتا ‘ صرف جسمانی اذیت میں مبتلا ہوجاتاے۔ (2) انکار کی صورت میں مجبور آدمی اپنے اختیار کا مالک ہی نہ رہے۔ مثلاً ہاتھ پاؤں کاٹنا یا قتل کردینا۔ ان دونوں صورتوں میں اکراہ کا حکم اس وقت جاری ہوگا کہ مجوے ر کرنے والا ‘ اس اذیت دینے پر قدرت رکھتا ہو جس کی دھمکی دے رہا ہے اور جس کو محبور کیا جا رہا ہے ‘ اس کا بھی غالب خیال ہو کہ اگر میں انکار کر دوں گا تو اس شخص کی طرف سے مجھے یہ دکھ پہنچ جائے گا۔ آیت میں اکراہ کی اوّل صورت مراد نہیں ہے۔ ایسے اکراہ کا اثر تو صرف خریدو فروخت ‘ اقرار قرض ‘ کسی جائیداد کے ٹھیکہ کے لین دین وغیرہ پر ہی پڑتا ہے۔ اس صورت میں جب خوف اذیت نہ رہے اور ایذاء رساں طاقت سے آزادی مل جائے تو مجبوری کی حالت میں جو عقد ‘ اقرار ‘ ٹھیکہ وغیرہ کا لین دین کیا ہو ‘ اس کو فسخ کردینا جائز ہے۔ قائم رکھے ‘ چاہے منسوخ کر دے۔ تجارت ‘ لین دین وغیرہ ایسے عقود ہیں جن کیلئے فریقین کی رضامندی ضروری ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : اِلاّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ۔ اکراہ کی شکل میں مجبور شخص کی رضامندی نہیں ہوتی ‘ اسلئے جبر ختم ہونے کے بعد اس کو اختیار ہے چاہے معاملے کو فسخ کر دے ‘ چاہے قائم رکھے۔ اگر قیمت پر بخوشی قبضہ کرلیا تو بیع کو نافذ قرار دیا جائے گا۔ قبول قیمت علامت رضامندی ہے۔ آیت مذکورہ میں اکراہ کی دوسری قسم مراد ہے۔ علماء کا اجماع ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا گیا ہو اور وہ بےبس ہوجائے تو ظاہری طو پر کفر اختیار کرلینا جائز ہے بشرطیکہ دل میں اطمینان ایمانی ہو۔ حضرت عمار کے متعلق اس آیت کا نزول اس مسئلے کے ثبوت کیلئے کافی ہے۔ حضرت عمار کو کافر نہیں قرار دیا گیا۔ ایسے ظاہری کافر کا نکاح بھی فسخ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کلمۂ کفر زبان پر لانے سے انکار کر دے اور جان کی قربانی دے دے تو افضل ہے ‘ جسے حضرت عمار کے والدین نے کیا۔ حضرت خبیب ‘ حضرت زید بن دثنہ اور حضرت عبد اللہ بن طارق نے بھی مرتد ہونا پسند نہیں کیا اور شہادت کو اختیار کیا۔ اصحاب سیر نے سریۂ رجیع کے بیان میں لکھا ہے کہ حضرت خبیب کو جب قتل کیا جانے لگا تو آپ نے قتل سے پہلے دو رکعت نماز پڑھی۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت خبیب ہی نے سب سے پہلے قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنے کا طریقہ قائم کیا۔ جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ کو ایک تختہ سے باندھ دیا ‘ پھر مدینہ کی طرف منہ کردیا اور بندش مضبوط کردی۔ پھر کہنے لگے : اسلام سے لوٹ جاؤ ‘ ہم تم کو چھوڑ دیں گے۔ حضرت خبیب نے فرمایا : خدا کی قسم ! مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ اسلام سے مرتد ہونے کی شرط پر مجھے ساری دنیا کی دولت مل جائے۔ کافر کہنے لگے : اب تو چاہتے ہو گے کہ محمد ﷺ میری جگہ ہوتے اور میں اپنے گھر بیٹھا چین کرتا۔ حضرت خبیب نے فرمایا : نہیں ‘ خدا کی قسم ! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ محمد ﷺ کے کوئی کانٹا چبھ جائے اور میں گھر میں آرام سے بیٹھ رہوں۔ کافر برابر کہتے رہے : خبیب ! اسلام سے لوٹ جاؤ۔ حضرت خبیب نے فرمایا : نہیں ‘ میں کبھی اسلام سے نہیں پھرنے کا۔ کہنے لگے : اگر اسلام سے نہ پھرو گے تو ہم تم کو قتل کردیں گے۔ بولے : اللہ کی راہ میں مارا جانا ایک حقیر چیز ہے۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت خبیب نے شہادت سے پہلے چند اشعار پڑھے تھے جن میں سے دو شعر یہ تھے : ” اگر مسلمان ہونے کی حالت میں مارا جاؤں تو مجھے پرواہ نہیں کہ کس بل سے اللہ کی راہ میں زمین پر گرتا ہوں۔ میرا یہ قتل ہونا اللہ کی خوشنودی کیلئے ہے۔ اگر اللہ چاہے گا تو پارہ پارہ جسم کے جوڑ جوڑ میں برکت عطا فرما دے گا “۔ ابن عقبہ کا بیان ہے کہ حضرت خبیب اور حضرت زید دونوں ایک ہی دن شہید کئے گئے اور جس روز ان کی شہادت ہوئی ‘ اسی روز لوگوں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : وعلیکما السّلام۔ ابن ابی شیبہ نے حسن بصری کی مرسل روایت سے بیان کیا ہے اور عبدالرزاق نے اپنی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے دونوں مسلمانوں کو گرفتار کرلیا اور ایک سے کہا : محمد ﷺ کے متعلق تیرا کیا خیال ہے ؟ اس نے جواب دیا : وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ مسیلمہ نے کہا : میرے متعلق تیرا کیا خیال ہے ؟ اس نے جواب دیا : آپ بھی۔ مسیلمہ نے دوسرے سے پوچھا : محمد ﷺ کے متعلق تو کیا کہتا ہے ؟ اس نے جواب دیا۔ وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ مسیلمہ نے پوچھا : میرے متعلق تو کیا کہتا ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں بہرا ہوں۔ مسیلمہ نے یہی بات تین بار دہرائی اور اس شخص نے بھی یہی جواب دہرا دیا۔ آخر مسیلمہ نے اس کو قتل کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع پہنچی تو اوّل شخص کے متعلق فرمایا : اس نے اللہ کی دی ہوئی اجازت کو اختیار کرلیا اور دوسرے نے بلند آواز سے اعلان حق کیا ‘ اس کو مبارک ہو۔ مسئلہ اگر کسی مسلمان کا مال تلف کرنے پر کسی کو مجبور کیا جائے تو اس کا مال تلف کرنا اس کیلئے جائز ہے۔ ضرورت کے وقت غیر کا مال مباح ہوجاتا ہے ‘ جیسے سخت بھوک کے وقت کسی کا مال کھا لینا جائز ہے۔ لیکن صاحب مال مجبور کرنے والے سے اپنے مال کا تاوان وصول کرے گا کیونکہ مجبور شخص تو اس جابر کا آلۂ کار ہے اور جس صورت میں آلۂ کار بننا درست ہو ‘ اس میں تاوان آلۂ کار بنانے والے سے لیا جاتا ہے۔ مسئلہ اگر شراب پینے یا مردار کھانے پر مجبور کیا جائے تو ایسا کرلینا باتفاق علماء جائز ہے ‘ لیکن کیا نہ کھانا اور جان دے دینا جائز ہے ؟ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حرام کو کھا پی لینا واجب ہے ‘ انکار کر کے جان دے دینا جائز نہیں۔ جیسے حلال چیز (یعنی پرائی حلال چیز کو) جان بچانے کیلئے کھا پی لینا واجب ہے ‘ ویسے ہی شراب اور مردار کا حکم ہے۔ اگر کھانے پینے سے انکار کر کے جان دے دے گا تو گنہگار ہوگا اور بلاضرورت اپنی جان کھو دینے میں اس جابر کا مددگار مانا جائے گا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک اگر کھانے پینے سے انکار کر کے جان دے دے گا تو گناہگار نہ ہوگا۔ امام شافعی کا بھی صحیح ترین قول یہی ہے ‘ کیونکہ ایسی صورت میں جان کیلئے شراب پینے کی اجازت اور رخصت ہے ‘ اباحت نہیں ہے۔ شراب مباح نہیں ہوجاتی۔ اب اگر اس نے عزیمت کو اختیار کیا (اور شراب کی حرمت پر قائم رہ کر جان دے دی) تو گناہگار نہیں ہوسکتا۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : یہ رخصت نہیں ‘ اباحت ہے۔ اضطرار کی حالت میں مردار بھی ذبیحہ کی طرح حلال ہوجاتا ہے۔ آیت میں حالت اضطرار مستثنیٰ ہے۔ فرمایا ہے : اِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ ۔ استثناء کر کے حالت اضطرار کو عدم اضطرار کی حالت سے حکم میں علیحدہ کرلیا گیا ہے (اور ظاہر ہے کہ عدم اضطرار کی حالت میں حرمت کا حکم ہے تو اضطرار کی حالت میں اباحت ہوگی ‘ رخصت نہ ہوگی) ہاں ‘ اگر غیر کا مال کھانے پر مجبور کیا گیا اور انکار کرنے کی صورت میں مارا گیا تو باتفاق علماء ماجور ہوگا ‘ کیونکہ غیر کے مال کی حرمت ہر حال میں قائم ہے (کھا لینے کی صرف رخصت ہے) یہاں سے یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ اکراہ سے خطاب نہیں بدلا کرتا کہ ایک ہی چیز ایک مرتبہ مباح اور فرض ہوجائے اور پھر کبھی وہی چیز حرام ہوجائے۔ اسی لئے امام ابوحنیفہ نے ایک عام ضابطہ قائم کردیا ہے کہ جس تصرف کا حکم الفاظ پر جاری ہوتا ہو ‘ دل کی رضا پر موقوف نہ ہو ‘ وہ حکم اس وقت بھی مرتب ہوگا جب وہ تصرف جبر کی حالت میں کیا جائے۔ اس قسم کے تصرفات (جو الفاظ پر مبنی ہوں اور ان میں دل کی رضامندی ضروری نہیں) دس ہیں : نکاح ‘ طلاق ‘ طلاق سے رجوع ‘ ایلاء رفء ‘ ظہار ‘ غلام کی آزادی ‘ قصاص کی معافی ‘ قسم ‘ نذر (ان سب کے احکام صرف زبان سے کہنے سے نافذ ہوجائیں گے ‘ زبانی ایجاب و قبول سے نکاح ہوجائے گا ‘ زبان سے لفظ طلاق کہہ دینے سے طلاق ہوجائے گی ‘ صرف زبان سے آزاد کرنے سے غلام آزاد ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ ‘ ان احکام کے مرتب ہونے کیلئے دل کی رضامندی ضروری نہیں ‘ پس کسی نے جبراً اگر طلاق یا نکاح میں ایجاب و قبول یا معافی یا قسم وغیرہ کے الفاظ کہلوا لئے تو احکام مرتب ہوجائیں گے) شعبی ‘ نخعی اور ثوری کا بھی یہی مسلک ہے __ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک کوئی جبری تصرف جاری نہیں ہوسکتا۔ جبر سے احکام مرتب نہیں ہوں گے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ‘ آپ فرما رہے تھے : اغلاق (جبر کی صورت) میں نہ طلاق ہے نہ باندی غلام کی آزادی۔ رواہ احمد وابو داؤد ‘ وابن ماجۃ والحاکم وابن الجوزی ‘ وابو یعلی والبیہقی من طریق صفیۃ بنت عثمان عن شیبۃ۔ اس سلسلے کو حاکم نے صحیح کہا ہے ‘ لیکن اس سند میں ایک راوی محمد بن عبیدہ مکی ہے جس کو ابو حاتم زاری نے ضعیف کہا ہے۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ قتادہ نے کہا : اغلاق کا معنی ہے : اکراہ (جبر کرنا) یہ لفظ اَغْلَقتُ الْبَابَ سے ماخوذ ہے ‘ گویا مجبور آدمی کو جابر کی مرضی کے خلاف کرنے سے بند کردیا جاتا ہے۔ بعض علماء نے اغلاق کا ترجمہ شدت غصہ کیا ہے۔ سنن ابو داؤد میں یہ ترجمہ آیا ہے اور امام احمد نے بھی اس لفظ کی یہی تشریح کی ہے ‘ لیکن یہ تشریح اچھی نہیں ہے۔ ابن اسید نے اس کو پسند نہیں کیا ہے اور صراحت کی ہے : اگر اغلاق کا ترجمہ غضب کیا جائے گا تو کوئی طلاق ہی نہیں پڑے گی کیونکہ ہر شخص سخت غصہ کی حالت میں ہی طلاق دیتا ہے۔ حسن بصری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے تمہارے لئے بھول چوک کو معاف کردیا اور اس کو بھی جس پر تم کو مجبور کیا گیا ہو۔ رواہ ابن الجوزی۔ اس حدیث سے اصل مدعا کا ثبوت نہیں ہوتا کیونکہ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو گناہ کا کام جبراً کسی سے کرایا گیا ہو ‘ اللہ اس کا مواخذہ نہیں کرے گا۔ یہ مطلب نہیں کہ دنیوی احکام بھی مرتب نہ ہوں گے۔ اسی حدیث کی ہم معنی وہ حدیث بھی ہے جو طبرانی نے از روایت ثوبان نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت سے بھول چوک (کی سزا) اٹھا لی گئی ہے اور وہ کام بھی جس پر لوگوں کو مجبور کیا گیا ہو۔ حضرت ابو درداء کی روایت سے بھی ایسا ہی آیا ہے ‘ لیکن حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ان دونوں حدیثوں کی سند میں ضعف ہے۔ اس مضمون کی حدیث مختلف روایات سے ابن ماجہ ‘ ابن حبان ‘ دارقطنی ‘ بیہقی اور حاکم وغیرہ نے بحوالۂ اوزاعی بانتساب ابن عباس بیان کی ہے ‘ لیکن اہل روایت نے ان روایات کو منکر قرار دیا ہے۔ حضرت ابوذر کی روایت سے بھی یہ حدیث ابن ماجہ نے بیان کی ہے۔ اس کے سلسلہ میں شہر بن حوشب واقع ہے اور سند میں انقطاع ہے ‘ لیکن اگر حدیث کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی امام شافعی وغیرہ کا اس سے استدلال غلط ہے۔ بھول چوک اٹھا لئے جانے کا یہ معنی تو ہرگز نہیں کہ بھول چوک واقع نہ ہوگی ‘ یہ تو واقعہ کے خلاف ہے اسلئے تین ہی معنی ہوسکتے ہیں : (1) بھول چوک کا مواخذہ اخروی اٹھا لیا گیا ہے ‘ یعنی اللہ نے بھول چوک کی سزا معاف کردی ہے ‘ یہی مطلب صحیح ہے۔ (2) بھول چوک کا عمومی مطلب اٹھا لیا گیا ہے (نہ حکم دینا بھول چوک پر مرتب ہوتا ہے نہ آخرت کا حکم یعنی سزا) یہ مطلب غلط ہے۔ عموم حکم کسی لفظ سے نہیں معلوم ہوتا ‘ مقتضی النص میں عموم نہیں ہوتا۔ (3) احکام دینا اٹھا لئے گئے ہیں۔ یہ مطلب اجماع کے خلاف ہے۔ بالاتفاق حکم آخرت یعنی مواخذہ کا اٹھایا جانا اس جگہ مراد ہے ‘ اسلئے حکم دنیا مع حکم آخرت کے مراد نہیں ہوسکتا ورنہ عموم مقتضی لازم آئے گا۔ کذا قال ابن ہمام ابن جوزی نے شافعیہ کے مسلک کی تائید میں حضرت عمر کا ایک فیصلہ نقل کیا ہے۔ عہد فاروقی میں کوئی شخص کسی پہاڑی پر چڑھ گیا ‘ اس کی بیوی اور بلندی پر جا بیٹھی۔ بیوی نے کہا : یا تو مجھے تین طلاقیں تو دے دے ورنہ میں اوپر سے پتھر لڑھکا کر تجھے قتل کر دوں گی۔ اس شخص نے عورت کو ہرچند اللہ اور اسلام کا واسطہ دیا اور اللہ سے ڈرایا ‘ لیکن وہ نہ مانی۔ مجبوراً اس شخص نے تین طلاقیں دے دیں۔ پھر حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا : لوٹ کر اپنی بیوی کے پاس چلا جا ‘ یہ طلاق نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ نے بھی اپنے مسلک کی تائید میں چند احادیث نقل کی ہیں جن میں سے ایک حدیث حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں ہیں جن میں سنجیدگی تو سنجیدگی ہی ہے اور ان میں مذاق بھی سنجیدگی (کا حکم رکھتی) ہے : نکاح ‘ طلاق ‘ رجعت۔ رواہ ابو داؤد والترمذی وابن ماجہ واحمد والحاکم والدارقطنی۔ ترمذی نے اس کو حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ ابن جوزی نے کہا : اس کی سند میں ایک راوی عطاء بن عجلان ہے جو متروک الحدیث ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے : ابن جوزی سے غلطی ہوگئی۔ انہوں نے عطاء کو عطاء بن عجلان سمجھ لیا حالانکہ عطاء بن عجلان نہیں ‘ عطا بن ابی ریاح ہے (جو قوی راوی ہے) ابوداؤد کی روایت میں اس کی صراحت آئی ہے اور حاکم نے بھی اسی کی صراحت کی ہے ‘ لیکن اس کی سند میں ایک شخص عبدالرحمن بن جبیر آیا ہے اور اس شخص کے متعلق اختلاف ہے۔ نسائی نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے اور دوسرے علماء نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے ہم اس حدیث کو حسن کہتے ہیں۔ ایک شبہ تصرف شرعی کیلئے صاحب تصرف کا بااختیار ہونا ضروری ہے۔ اگر بطور ہزل (یعنی مذاق کے طور پر) کوئی طلاق دے دے تو اس کا یہ کلام بھی اپنے اختیار سے ہی ہوتا ہے ‘ البتہ وہ کلام کے حکم (یعنی طلاق) پر راضی نہیں ہوتا ‘ مگر رضائے قلب کو وقوع طلاق میں کوئی دخل نہیں ہے۔ لہٰذا وہ شخص جس نے اپنے اختیار سے بطور ہزل طلاق دی ہو ‘ اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ لیکن اکراہ میں تو متکلم کا اختیار نہیں ہوتا ‘ اس سے سرزد ہونے والی طلاق کو ہزل کی طلاق سے کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے ؟ ازالہ ہم کہتے ہیں : جس شخص پر جبر کیا گیا ہو وہ بھی تو بااختیار ہوتا ہے ‘ اس کا کلام بھی اختیار ہی کے ساتھ ہوتا ہے اور کامل اختیار کے ساتھ ہوتا ہے اور ہزل کے طور پر طلاق دینے والے کی طرح وہ بھی حکم کلام (یعنی طلاق) کو پسند نہیں کرتا۔ وہ خوب واقف ہوتا ہے کہ جبر کرنے والے کی مخالفت بھی تکلیف دہ ہے اور وقوع طلاق بھی دکھ دینے والا ہے مگر دونوں میں آسان مصیبت کو وہ جان کر اختیار کرتا ہے ‘ لہٰذا مکرہ (مجبور) کی طلاق کا واقع ہونا ضروری ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے : نفی حکم طلاق میں اکراہ کو کوئی دخل نہیں۔ جب حضرت حذیفہ اور ان کے والد سے کفار نے قسم لے لی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے دونوں حضرات سے فرمایا : ہم کافروں کی طرف سے لئے ہوئے عہد کو پورا کریں گے اور اللہ سے ان کے خلاف مدد چاہیں گے۔ اس حدیث میں حضور ﷺ نے بتاد یا کہ قسم اپنی خوشی سے کھائی جائے یا کسی کے جبر سے ‘ دونوں برابر ہیں۔ محض لفظ پر جو حکم مرتب ہوتا ہے ‘ اس کی نفی میں اکراہ کو کوئی دخل نہیں (اختیار سے اس لفظ کا صدور ہو یا اکراہ سے ‘ دونوں برابر ہیں) بیع کی حالت اس سے جدا ہے۔ بیع کی صحت کا تعلق الفاظ یا قائم مقام الفاظ سے ضرور ہے مگر دل سے رضامندی ضروری ہے اور اکراہ کی صورت میں یہ رضامندی نہیں ہوتی۔ امام ابوحنیفہ کے قول کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ ہیں (حضور ﷺ نے فرمایا :) ہر طلاق نافذ ہے سوائے پاگل ‘ مغلوب العقل کی طلاق کے۔ ترمذی نے کہا : ہم کو یہ حدیث صرف عکرمہ بن خالد کی وساطت سے بروایت حضرت ابوہریرہ معلوم ہوئی ہے۔ عطاء بن عجلان از عکرمہ کی روایت سے بھی یہ حدیث آئی ہے ‘ مگر عطاء ضعیف اور منکر الحدیث ہے (اسلئے عطاء کی وساطت سے اس حدیث کی روایت ناقابل اعتبار ہے) ۔ امام شافعی کے قول کی تائید میں صفوان بن اصم کی روایت کردہ حدیث بھی آئی ہے۔ صفوان نے ایک صحابی کی روایت سے بیان کیا کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ سو رہا تھا۔ بیوی یکدم اٹھی اور چھری لے کر مرد کے سینہ پر بیٹھ گئی اور چھری اس کے حلق پر رکھ کر بولی : مجھے طلاق دے دو ورنہ تجھے ذبح کر دوں گی۔ مرد نے اس کو اللہ کا واسطہ دیا ‘ مگر وہ نہ مانی۔ آخر مرد نے اس کو تین طلاقیں دے دیں اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : طلاق میں قیلولہ نہیں۔ ابن جوزی کا بیان ہے کہ بخاری نے کہا کہ طلاق مکرہ کے بارے میں صفوان بن اصم کی روایت کردہ حدیث منکر ہے ‘ اس کو نہیں مانا جائے گا۔ ابن ہمام نے حضرت عمر کا قول نقل کیا ہے کہ چار مسئلے مبہم ‘ ناقابل حل ہیں جن کی کوئی واپسی نہیں : نکاح ‘ طلاق ‘ غلاموں کی آزادی اور صدقہ (یعنی ان چاروں میں اکراہ اور جبر سے بھی حکم مرتب ہوجاتا ہے) ۔ میں کہتا ہوں : بظاہر امام ابوحنیفہ کا استدلال قوی ہے اور اگر احادیث میں تعارض تسلیم بھی کرلیا جائے تو قیاس کی طرف رجوع لازم ہے اور قیاس چاہتا ہے کہ (مکرہ کی) طلاق ‘ عتاق وغیرہ کا وقوع ہوجائے۔ وا اللہ اعلم
Top