Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 121
شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖ١ؕ اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
شَاكِرًا : شکر گزار لِّاَنْعُمِهٖ : اس کی نعمتوں کے لیے اِجْتَبٰىهُ : اس نے اسے چن لیا وَ هَدٰىهُ : اور اس کی رہنمائی کی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی راہ
اس کی نعمتوں کے شکرگزار تھے۔ خدا نے ان کو برگزیدہ کیا تھا اور (اپنی) سیدھی راہ پر چلایا تھا
شاکرا لا نعمہ اجتباہ وھداہ الی صراط مستقیم ‘ اللہ کی نعمتوں کے شکرگذار تھے۔ اللہ نے ان کو منتخب کرلیا تھا اور ان کو سیدھے راستے پر ڈال دیا تھا۔ امت کے معنی صاحب قاموس نے حسب ذیل بیان کئے ہیں : وہ شخص جس میں ہر طرح کی اچھائی اور خوبی ہو۔ وہ شخص جو حق پر ہو اور تمام مذاہب (باطلہ) کا مخالف ہو۔ چستی ‘ طاعت ‘ عالم وغیرہ۔ حضرت ابراہیم کے اندر اتنے فضائل اور محاسن جمع تھے جو متعدد اشخاص میں بھی پائے جانے دشوار ہیں۔ آپ سب لوگوں کے مقتدا تھے ‘ حق پر قائم تھے ‘ تمام باطل مذاہب کے مخالف تھے (ا اللہ کی فرمانبرداری میں) مجسم نشاط وطاعت تھے ‘ اللہ اور اس کے احکام کو جانتے تھے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : حضرت ابراہیم معلم خیر تھے۔ تمام دنیا کے لوگ آپ کی اقتداء (کا دعویٰ ) کرتے ہیں۔ اُمٌّ کا معنی ہے : قصد کرنا۔ اُمّتٌ بروزن فُعْلَۃٌ بمعنی اسم مفعول ہے ‘ یعنی مقصود کل۔ مجاہد نے کہا : تنہا آپ ہی مؤمن تھے ‘ باقی سب لوگ کافر تھے۔ قَانِت یعنی اللہ کے فرمانبردار ‘ احکام خداوندی پر قائم۔ حَنِیْف باطل سے پھرجانے والے ‘ حق کی جانب مڑ نے والے۔ بعض علماء نے حَنِیْف کا ترجمہ کیا ہے : دین اسلام پر قائم رہنے والے۔ بعض نے ترجمہ کیا ہے : مخلص۔ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ قریش کا دعویٰ تھا کہ ہم حضرت ابراہیم کے دین پر ہیں۔ اللہ نے اس دعوے کی تردید کردی کہ ابراہیم مشرک نہ تھے (اور تم لوگ مشرک ہو) ۔ صِرَاطِ مُّسْتَقِیْمٍ سے مراد ہے : دین اسلام اور اللہ کی طرف آنے کی دعوت۔
Top