Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 122
وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً١ؕ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ
وَاٰتَيْنٰهُ : اور اس کو دی ہم نے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں لَمِنَ : البتہ۔ سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبی دی تھی۔ اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے
واتینا فی الدنیا حسنۃ اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبیاں دی تھیں۔ حَسَنَۃ سے مراد ہے : پیغمبری اور خالص دوستی۔ حضرت مجدد نے فرمایا : حَسَنَۃ سے مراد خُلَّت (خالص دوستی) ہے۔ ہر شخص اپنے خلیل کو ان اسرار سے واقف کرتا ہے جو محب یا محبوب سے تعلق رکھتے ہیں ‘ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنے اور اپنی آل کیلئے اسی طرح کی رحمت نازل ہونے کی درخواست کی تھی جو حضرت ابراہیم اور ان کی آل پر نازل کی گئی تھی۔ آپ نے دعا کی تھی : اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰل اِبْرٰھِیْمَ ۔ علامہ مفسر (رح) کی زبان قلم سے مجدد الف ثانی (رح) کی تعریف رسول اللہ ﷺ خالص محبوبیت کے مرتبہ پر فائز تھے۔ خُلَّت کا درجہ خالص محبوبیت کے درجہ سے نیچا ہے۔ مقام خلت محبوبیت خالصہ کے راستہ میں واقع ہے ‘ اسلئے حضور ﷺ مقام خلت پر نہیں ٹھہرے ‘ نہ ٹھہرنے کی اجازت تھی لیکن آپ کی خواہش تھی کہ مقام خلت میں بھی کچھ استقرار کریں اور استقرار کی اجازت مل نہیں سکی ‘ اسلئے اللہ نے حضور ﷺ کے متبعین میں سے ایک ہزار سال کے بعد ایک شخص کو مقام خلت میں استقرار عطا فرما دیا۔ تابع کا کمال متبوع کے کمال کا جزء ہوتا ہے اور جزء کل میں داخل ہوتا ہے ‘ پس حضرت مجدد کا کمال یعنی مقام خلت میں استقرار رسول اللہ ﷺ کے کمال محبوبیت کا ہی ایک حصہ تھا اور حضور ﷺ کے اتباع ہی سے حضرت مجدد کو یہ مرتبہ حاصل ہوا تھا۔ کسی گورنر ‘ کمانڈر یا شاہی ملازم کو کسی قلعہ کو سر کرنا یا کسی شہر پر قبضہ کرلینا اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ اس فاتح کا تعلق مرکز سلطانی سے ہوتا ہے اور ملازم کی فتحیابی اور قبضہ سلطان معظم کی کامیابی اور فتح ہوتی ہے ‘ پس حضرت مجدد کو مقام خلت پر فائز کرنا اور استقرار عطا کرنا حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کو ہی مقام خلت پر فائز کرنا ہے۔ وانہ فی الاخرۃ لمن الصلحین اور وہ آخرت میں بھی اچھے لوگوں میں ہوں گے۔ صالحین سے مراد ہیں : انبیاء معصومین۔ صلاح کی تکمیل بغیر عصمت (یعنی تمام گناہوں سے بچنے کی منجانب اللہ توفیق) کے نہیں ہوتی اور عصمت کا تقاضا ہے کہ آخرت میں ہر نیکی کا ثواب بغیر کمی کے پورا پورا ملے اور یہ خصوصیت صرف اہل عصمت ہی کی ہے کہ ہر نیکی کا پورا پورا ثواب حاصل ہو کیونکہ کسی صغیرہ یا کبیرہ کا ارتکاب کرنے سے توازن اعمال کے وقت نیکیوں کے وزن میں کچھ کمی آجانے کا احتمال ہے ‘ اسلئے اگر رحمت خداوندی شامل حال نہ ہو تو غیر معصوم کی نیکی کا ثواب مقابلۂ گناہ کے وقت کچھ کم ہوسکتا ہے۔ ہاں ‘ اگر کوئی گناہ ہی نہ ہو تو خفت حسنات کا کوئی احتمال ہی نہیں ہے۔ گویا یہ آیت جواب ہے اس دعا کا جو حضرت ابراہیم نے کی تھی اور کہا تھا : اَلْحِقْنِیْ بالصَّلِحِیْنَ ۔
Top