Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 104
اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ ضَلَّ : برباد ہوگئی سَعْيُهُمْ : ان کی کوشش فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَهُمْ : اور وہ يَحْسَبُوْنَ : خیال کرتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ يُحْسِنُوْنَ : اچھے کر رہے ہیں وہ صُنْعًا : کام
وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں
الذین ضل سعینہم فی الحیوۃ الدنیا وہم یحسبون انہم یحسنون صنعا۔ سب سے زیادہ خسارے میں وہ لوگ ہوں گے کہ دنیوی زندگی میں کی ہوئی ان کی ساری کوششیں اکارت (اور رائیگاں) جائیں گی اور وہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم اچھے کام کر رہے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا آیت میں سب سے زیادہ خسارہ پانے والوں سے مراد ہیں عیسائی اور یہودی جو اپنے گروہ کو حق پر سمجھتے ہیں حالانکہ ان کی شریعت منسوخ ہوچکی بعض کے نزدیک وہ تارک الدنیا خانقاہ نشین راہب مراد ہیں جو اپنے خیال میں آخرت کے طالب اور لذائذ دنیا سے روگرداں ہیں حالانکہ وہ شریعت اسلامیہ کے منکر ہیں ان کی یہ ساری کوششیں سراب اور ناکارہ ثابت ہوں گی۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا حروراء والے (یعنی خارجی) مراد ہیں خارجیوں کا فرقہ ہی سب سے پہلا گروہ تھا جس نے صحابہ کرام ؓ اور صحابہ کے رفقاء کے خلاف بغاوت کی اور بغاوت کو حق سمجھا۔ حضرت علی کے اس کلام کا مقصد یہ ہے کہ آیت میں بدعتی اور نفسانی میلانات کے پرستار مراد ہیں (جن کے سرگروہ اور مؤسس خارجی تھے) پس معتزلہ روافض اور اہل سنت کے تمام مخالف اسی حکم میں داخل ہیں۔ میں کہتا ہوں آیت کا کھلا ہوا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں کفار مراد ہیں جو قیامت قائم ہونے اور دوسری جسمانی زندگی پانے کے منکر تھے اور دنیوی فائدہ ہی ان کا مقصود زندگی تھا اس زندگی کے منافع جن طریقوں سے وابستہ ان کو نظر آتے تھے انہی راستوں پر چلتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ اس دنیا کے سوا کوئی اور زندگی نہیں اگر کوئی شخص آخرت کی تمنا میں ایسے کام کرتا ہے جن سے دنیوی منافع میں نقصان ہوتا ہے تو ایسا آدمی بیوقوف ہے۔
Top