Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 127
وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ
وَاصْبِرْ : اور صبر کرو وَمَا : اور نہیں صَبْرُكَ : تمہارا صبر اِلَّا : مگر بِاللّٰهِ : اللہ کی مدد سے وَلَا تَحْزَنْ : اور غم نہ کھاؤ عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا تَكُ : اور نہ ہو فِيْ : میں ضَيْقٍ : تنگی مِّمَّا : اس سے جو يَمْكُرُوْنَ : وہ فریب کرتے ہیں
صبر کرو اور آپ ﷺ کا صبر کرنا نہیں ہے مگر اللہ کی مدد سے اور ان لوگوں کے حال پر غم نہ کھا ، نہ ہی ان کی مخالفانہ مخفی تدبیروں سے دل تنگ ہو
اے پیغمبر اسلام ! صبر کرو اور آپ ﷺ کا صبر کرنا اللہ ہی کی توفیق سے ہوسکتا ہے : (141) ۔ صبر کی حقیقت پر عوام کی غلط فہمی نے تدبر پر تو پردے ڈال رکھے ہیں ، وہ ان کے نزدیک بےبسی وبے کسی کی تصویر ہے اور اس کے معنی اپنے دشمن سے کسی مجبوری کے باعث انتقام نہ لے سکنا کے کئے جاتے ہیں لیکن کیا واقعہ یہی ہے ؟ یاد رہے کہ صبر کے لغوی معنی ” روکنے “ اور ” سہارنے “ کے ہیں یعنی اپنے نفس کو اضطراب اور گھبراہٹ سے روکنا اور اس کو اپنی جگہ ثابت قدم رکھنا اور یہی صبر کی معنوی حقیقت بھی ہے یعنی اس کے معنی بےاختیاری کی خاموشی اور انتقام نہ لے سکنے کی مجبوری کے نہیں بلکہ پامردی ‘ دل کی مضبوطی ‘ اخلاقی جرات اور ثابت قدم کے ہیں ۔ اور قرآن کریم میں صبر کا لفظ اس ایک معنی میں مستعمل ہوا ہے گو حالات کے تغیر سے اس کے مفہوم میں کہیں کہیں ذرا ذرا فرق پیدا ہوگیا ہے بایں ہمہ انسب کا مرجع ایک ہی ہے یعنی ثابت قدمی اور استقامت ‘ صبر کے یہ مختلف مفہوم دراصل اپنے اندر ایک ہی حقیقت رکھتے ہیں ۔ ہر قسم کی تکلیف اٹھا کر اور اپنے مقصد میں جمے رہ کر کامیابی کے وقت کا انتظار کرتا ہے اور اس بات کا زیر نظر آیت میں آپ کو حکم دیا گیا ہے جس کو مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اے پبرم اسلام ! ا۔ صبر کر اور تیرا صبر کرنا اللہ تعالیٰ ہی کی مدد وتوفیق سے ہے ۔ ب۔ منکروں کی محرومی پر غم نہ کھا ‘ جو ماننے والے نہیں ہیں وہ کبھی نہیں مانیں گے ۔ ج۔ دعوت حق کی مخالفت میں وہ جو کچھ مخفی تدبیریں اور سازشیں کر رہے ہیں ان سے بھی دل تنگ نہ ہو۔
Top