Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 31
وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا٢۪ۖ
وَّجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے مُبٰرَكًا : بابرکت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں كُنْتُ : میں ہوں ‎وَاَوْصٰىنِيْ : مجھے حکم دیا ہے اس نے بِالصَّلٰوةِ : نماز کا وَالزَّكٰوةِ : اور زکوۃ کا مَا دُمْتُ : جب تک میں رہوں حَيًّا : زندہ
اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کو نماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے
وجعلنی مبارکا این ما کنت اور اس نے مجھے برکت والا بنایا ہے میں جہاں بھی ہوں۔ یعنی آسمان میں ہوں یا زمین میں اللہ نے مجھے نفع رساں بنایا ہے۔ اس جملہ میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی نفع رسانی ثابت ہو رہی ہے۔ زمین میں انسانوں کو اور آسمان میں ملائکہ کو لفظ برکت کا معنی یا ثبات خیر ہے اس پر یہ بَرَکَ الْبَعِیْر (اونٹ بیٹھ گیا) کے محاورہ سے ماخوذ ہوگا۔ یا زیادتی عطا برکت کا معنی ہے ‘ دعا میں کہا جاتا ہے اللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیْ عَطَاءِکَاے اللہ ! اپنی عطا میں زیادتی عطا فرما ‘ یا اس کا معنی ہے عظمت و بزرگی ‘ جیسے بولتے ہیں یہ فلاں شخص کی برکت سے ہے اس جگہ مبارکًا سے بعض علماء کے نزدیک نفع رساں مراد ہے ‘ مجاہد نے کہا معلم خیر ہونا مراد ہے ‘ عطا نے کہا اللہ کی توحید و عبادت کی طرف بلانے والا ‘ بعض نے کہا مجھے اللہ نے ان لوگوں کے لئے جو میری پیروی کریں مبارک بنایا ہے۔ واوصینی بالصلوۃ والزکوۃ ما دمت حیا۔ اور زندگی بھر اس نے مجھے نماز (پڑھنے) اور زکوٰۃ (دینے) کا حکم دیا ہے۔ زکوٰۃ سے مراد ہے اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض مالیہ کو ادا کرنا اور نفس کو بری خصلتوں سے پاک کرلینا۔ بغوی نے لکھا ہے شبہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس کبھی مال تھا ہی نہیں پھر ان کو زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم کیا معنی رکھتا ہے اس کے جواب میں بعض لوگوں نے کہا آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے پاس مال ہو تو زکوٰۃ ادا کرنے کا اس نے مجھے حکم دیا ہے ‘ بعض نے کہا زکوٰۃ سے مراد اس جگہ مالی زکوٰۃ نہیں بلکہ بکثرت بھلائی کرنا مراد ہے ‘ بعض نے کہا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دوں۔ مَا دُمْتُ حَیًّا (یعنی جب تک میں زندہ رہوں نماز اور زکوٰۃ ادا کرتا رہوں)
Top