Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 60
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْئًاۙ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس تَابَ : توبہ کی وَاٰمَنَ : وہ ایمان لایا وَعَمِلَ : اور عمل کیے صَالِحًا : نیک فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ يَدْخُلُوْنَ : وہ داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان کا نہ نقصان کیا جائیگا شَيْئًا : کچھ۔ ذرا
ہاں جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل نیک کئے تو اسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کا ذرا نقصان نہ کیا جائے گا
الا من تاب وامن وعمل صالحاً فاولئک یدخلون الجنۃ ولا یظلمون شیئا۔ ہاں اگر جس نے توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور نیک کام کرنے لگا سو ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی یعنی اتباع خواہشات اور ترک صلوٰۃ سے جس نے توبہ کرلی اور کفر چھوڑ کر ایمان لے آیا اور حسب تقاضائے ایمان نیک عمل کئے وہ جنت میں داخل ہوگا اور اس کی بالکل حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ آیت میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ توبہ اور ایمان کے بعد سابق کفر کا کوئی مواخذہ اس سے نہیں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام پچھلے (یعنی ایمان لانے سے پہلے جرائم) کو ڈھا دیتا ہے۔ رواہ مسلم من حدیث عمرو بن العاص۔ اِلاَّ مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ کے الفاظ دلالت کر رہے ہیں کہ مذکورۂ بالا عذاب کی وعید کافروں کے لئے ہے اور جو کفر کے بعد ایمان لے آئے اس کو جنت کی بشارت دی گئی ہے ‘ (حضرت مفسر (رح) نے فرمایا) میں کہتا ہوں کہ عذاب کی وعید سے صرف مَنْ اٰمَنَہی مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًاکا مجموعہ مستثنیٰ ہے اس لئے (وعید سابق صرف کافروں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ) مؤمن فاسق بھی وعید میں داخل ہیں ‘ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ غی زانی ‘ شرابی اور دوسرے اہل کبائر کے لئے ہے (یعنی صرف کافروں ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ فاسق مؤمنوں کے لئے بھی ہے) ۔
Top