Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 70
ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِیًّا
ثُمَّ : پھر لَنَحْنُ : البتہ اَعْلَمُ : خوب واقف بِالَّذِيْنَ : ان سے جو هُمْ : وہ اَوْلٰى بِهَا : زیادہ مستحق اس میں صِلِيًّا : داخل ہونا
اور ہم ان لوگوں سے خوب واقف ہیں جو ان میں داخل ہونے کے زیادہ لائق ہیں
ثم لنحن اعلم بالذین ہم اولی بہا صلیا۔ پھر ہم ان لوگوں کو خوب جانتے ہوں گے جو دوزخ میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ مستحق ہوں گے۔ ایک شبہ لفظ ثُمَّکا استعمال بتارہا ہے کہ پہلے جہنم کے گرداگرد دوزخیوں کو حاضر کیا جائے گا۔ اس کے بعد ہر گروہ میں سے سب سے بڑے نافرمانوں کو چھانٹا جائے گا ‘ پھر آخر میں اللہ کو علم ہوگا کہ آگ میں داخل ہونے کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ‘ حالانکہ اللہ کو اگر دوزخیوں کا علم پہلے سے نہ ہوگا تو دوزخ کے گرداگرد ان کو جمع کیسے کیا جائے گا اور سب سے بڑے نافرمانوں کو ہر گروہ میں سے چھانٹ کر کیسے نکالا جائے گا۔ ازالہ ثُمَّ اس جگہ تاخیر زمانی کے لئے مستعمل نہیں ہے بلکہ صرف ترتیب کلام کی تاخیر اور مرتبہ کی تراخی کے لئے مستعمل ہے جیسے آیت ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔ میں آیا ہے۔ (2) یا اس آیت میں جاننے سے مراد ہے عذاب دینا (کیونکہ جاننے کا نتیجہ عذاب کی شکل میں ہی نمودار ہوگا) اور ظاہر ہے کہ دوزخ پر حاضر کرنے کے بعد عذاب دیا جائے گا۔ ایک سوال اعلم اسم تفضیل ہے تو کیا اللہ کے سوا قیامت کے دن کوئی اور مخلوق بھی دوزخیوں کے مستحق دوزخ ہونے سے واقف ہو ‘ کیا کسی اور کو بھی ان کے عقائد و اعمال کا علم ہوگا۔ جواب یہاں اعلم بمعنی علیم کے ہے یعنی ہم ہی واقف ہوں گے کہ کون دوزخ میں داخلہ کا زیادہ مستحق ہے۔ (2) یہ بھی ممکن ہے کہ اعمالنامے لکھنے والے فرشتے دوزخیوں کے اعمال سے واقف ہوں بدکار اور پرہیزگار سعید اور شقی ہر ایک کو تفصیل سے جانتے ہوں لیکن ان سب کے علم سے اللہ کا علم زائد ہو پس اللہ سب سے زیادہ ان کے احوال سے واقف ہوگا (کیونکہ اللہ کو دماغی تصورات اور قلبی تصدیقات اور اندرونی نیتوں کا بھی علم ہے اور اعمال لکھنے والوں کو ان میں سے کسی بات کا علم نہیں ان کو تو صرف بدنی اعمال کا علم ہے) ۔ من کل شیعۃٍکا لفظ اگر کافروں اور گناہگار مسلمانوں سب کو شامل مانا جائے تو لفظ اشد سے تنبیہ ہوگی اس امر پر کہ اللہ بکثرت گناہگار مؤمنوں کو معاف فرما دے گا لیکن بغوی اور اکثر اہل تفسیر نے کل شیعۃ سے صرف کافروں کے گروہ مراد قرار دیئے ہیں اور رفتار کلام کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم کافروں کے ہر گروہ میں سے ترتیب وار حسب درجۂ کفر چھانٹ لیں گے اور یکے بعد دیگرے ترتیب کے ساتھ دوزخ میں پھینک دیں گے جو سب سے زیادہ باغی ہوگا ‘ اس کو سب سے پہلے پھر اس سے کم سرکش کو پھر اس سے کم بغاوت والے کو۔ یا یہ مطلب ہوگا کہ ہر کافر کو دوزخ کے اس درجہ اور طبقہ کے لئے چھانٹ لیں گے جو اس کے لئے مقرر اور نامزد ہوگا۔ آیت مذکورہ کی تشریح میں ابن ابی حاتم اور بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ جب اوّل و آخر سب کا حشر ہوچکے گا اور سب کی گنتی پوری ہوجائے گی تو پھر ترتیب وار بڑے جرائم والوں کو پھر ان سے کم جرائم والوں کو پھر ان سے کم درجہ کے مجرموں کو چھانٹا جائے گا ‘ ہناد نے احوص کا قول بھی اس آیت کی تشریح میں اسی کے قریب قریب نقل کیا ہے۔
Top