Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ پھیلاؤ) فساد ضد ہے صلاح کی اور یہ دونوں لفظ ہر قسم کی ضرر دینے والی اور نفع بخشنے والی چیزوں کو عام ہیں ( یعنی فساد کا لفظ ہر طرح کی مضرت رساں اور تکلیف دہ چیزوں کو شامل ہے اور صلاح کا لفظ ہر قسم کی مفید اور نفع بخش چیزوں کو) منافقوں کا ملک میں فساد پھیلانا (کیا تھا) مسلمانوں کو دھوکا دے کر لڑائیوں کی شورش پھیلانا ‘ آتش جنگ ہر طرف بھڑکانا ‘ مسلمانوں کے بھیدوں کو طشت ازبام کرکے کافروں کو ان پر پل پڑنے کی ترغیب دینا ! جناب نبی کریم ﷺ اور قرآن مقدس پر ایمان لانے سے لوگوں کو روکنا تھا۔ کسائی نے قیل کو اور نہ صرف قیل کو بلکہ غیض اور جئی اور حیل اور سیق اور سیئی اور سیئت کو اشمام سے پڑھا ہے اور ابن عامر نے اخیر کے چاروں کلموں میں موافقت کی ہے مگر نافع نے صرف اخیر کے دو صیغوں میں موافقت کی ہے۔ یہاں اشمام سے مراد ہے فاء کلمے کے کسرہ کو ضمے کی طرف اور یا کو واؤ کی طرف مائل کرنا ( یعنی کسرہ کو ضمے اور یاء کو واؤ کی بو میں پڑھنا) اور بعضے کہتے ہیں کہ فاء کلمے کو ضمے سے بطور اشباع اور بعضوں کے نزدیک بطور اختلاس پڑھنا۔ بعض قراء اس بات کے قائل ہیں کہ دونوں ہونٹوں سے ضمہ مقدرہ کی طرف اشارہ کرنا اور پھر اسے خالص کسرے سے پڑھنا اشمام ہے لیکن پہلی روایت صحیح تر ہے ( اور اسی پر قراء کا اتفاق بھی ہے) کسائی اور ابن عامر اور نافع کے علاوہ باقی قاری قیل کو صرف کسرے سے پڑھتے ہیں۔ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ( تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو لوگوں میں میل جول کرانے والے ہیں) حالانکہ وہ محض جھوٹے اور دروغ گو ہیں یہ منافقوں کا مقولہ ہے اور ان لوگوں کے رد میں استعمال کیا گیا ہے جو انہیں ملک خدا میں فساد نہ پھیلانے کی بابت نصیحت کرتے تھے۔ رد بھی پر زور طور پر کلمہ انما کے ساتھ ہے ( یعنی جب مسلمان ان سے کہتے تھے کہ ملک میں فساد نہ ڈالو تو وہ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ کہہ کر ان کے قول کی تردید کرتے تھے یا یوں کہو کہ جب مسلمان انہیں فساد کے برپا کرنے سے روکتے تھے تو وہ باہم کہتے تھے : اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ گویا وہ فساد کو صلاح کی صورت میں دیکھتے تھے اور یہ اس لیے کہ ان کو ان کے تمام برے کرتوت اچھی اور مزین صورت میں دکھائے جاتے تھے۔
Top