Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 10
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : بیماری ہے فَزَادَھُمُ : پس زیادہ کیا ان کو / بڑھایا ان کو اللّٰهُ : اللہ نے مَرَضًا : بیماری میں وَ : اور لَھُمْ : ان کے لئے عَذَابٌ : عذاب ہے اَلِيْمٌ : درد ناک / المناک بِمَا : بوجہ اس کے جو كَانُوْا : تھے وہ يَكْذِبُوْنَ : جھوٹ بولتے
ان کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا
فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ ( ان کے دلوں میں یہ پہلے ہی کفر کا مرض تھا) مَرَض اسے کہتے ہیں جو بدن کو عارض ہو کر اسے حد اعتدال سے خارج کردے اور (رفتہ رفتہ) ضعیف و کمزور کرکے ہلاکت ( کے گڑھے) تک پہنچا دے اور کبھی اس کا اطلاق اعراض نفسانیہ جیسے جہل ‘ حسد ‘ کفر اور سوء اعتقاد پر بھی مجازاً ہوجایا کرتا ہے کیونکہ ( جس طرح مرض حقیقی مانع صحت ہوتا اور ہلاکت و موت کے پنجہ میں گرفتار کردیتا ہے اسی طرح) یہ اوصاف بھی فضائل و محامد کے حاصل ہونے سے مانع ہوتے ہیں اور ہلاکت ابدی تک پہنچا دیتے ہیں منافق جن اغراض نفسانیہ کی بیماری میں مبتلا تھے وہ نہایت ہی موذی اور خبیث تھی۔ اس کے علاوہ ریاست و عظمت کے فوت ہونے اور مسلمانوں کی رفعت شان و شوکت ظاہر ہونے سے سخت متالم اور رنجیدہ تھے۔ فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ( تو اب خدا نے ان کے ان اغراض خبیثہ کو زنگ اور ختم سے تقویت دے کر ان کا مرض اور بھی زیادہ کردیا) اور قرآنی آیتیں نازل فرما کر ان کی اصل بیماری میں زیادتی کردی کہ جوں جوں آیات الٰہی کے ساتھ کفر کرتے جاتے ہیں کفرو عداوت میں بڑھتے جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ خدا نے اپنے نبی اکرم ﷺ کی مدد کرکے اور منافقوں کی دشمنی و عداوت طشت ازبام کرکے ان کے مرض کو اور بھی زیادہ کردیا) حمزہ نے زاد اور اسی طرح جاء اور شاء اور ران اور خاف اور خاب اور طاب اور خاق کو امالہ سے پڑھا ہے جس جگہ بھی اور جہاں کہیں بھی واقع ہوں۔ علیٰ ہذا القیاس سورة النجم میں لفظ زاغ کو اور سورة صفْ میں زاغوا کو امالہ سے پڑھنا جائز بتایا ہے خواہ یہ افعال ضمیر سے متصل ہوں یا نہ ہوں۔ ہاں شرط یہ ہے کہ افعال مذکورہ ثلاثی مجرد ہوں اور بس ابن ذکوان اس قاعدہ میں حمزہ کے تابع ہیں لیکن نہ مطلقاً بلکہ صرف جاء اور شاء میں جہاں کہیں بھی واقع ہوں اور زاد کو بھی امالہ سے پڑھتے ہیں مگر نہ ہر جگہ بلکہ صرف اسی موقع پر اور ایک روایت میں آیا ہے کہ ہر جگہ اور ہر موقع پر وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ( اور ان کو درد ناک عذاب ہوتا ہے اَلِیْمٌ معنی میں ہے مولم کے اور یہ عذاب کی صفت میں بطریق مبالغہ واقع ہوا ہے۔ یَکْذِبُوْنَ مامصدریہ ہے اس کو کو فیوں نے تخفیف سے اور باقی قراء نے تشدید سے پڑھا ہے پہلی تقدیر پر معنی یہ ہونگے کہ منافق اپنے دعوے اٰمَنّا میں جھوٹے ہیں اور دوسرے توجیہ پر یہ مطلب ہوگا کہ منافقوں کو جناب نبی کریم ﷺ کی در پردہ تکذیب پر عذاب درد ناک ہوگا۔
Top