Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 228
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١ؕ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠ ۧ
وَالْمُطَلَّقٰتُ
: اور طلاق یافتہ عورتیں
يَتَرَبَّصْنَ
: انتظار کریں
بِاَنْفُسِهِنَّ
: اپنے تئیں
ثَلٰثَةَ
: تین
قُرُوْٓءٍ
: مدت حیض
وَلَا يَحِلُّ
: اور جائز نہیں
لَهُنَّ
: ان کے لیے
اَنْ يَّكْتُمْنَ
: وہ چھپائیں
مَا
: جو
خَلَقَ
: پیدا کیا
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَرْحَامِهِنَّ
: ان کے رحم (جمع)
اِنْ
: اگر
كُنَّ يُؤْمِنَّ
: ایمان رکھتی ہیں
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَ
: اور
الْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یوم آخرت
ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ
: اور خاوند ان کے
اَحَقُّ
: زیادہ حقدار
بِرَدِّھِنَّ
: واپسی ان کی
فِيْ ذٰلِكَ
: اس میں
اِنْ
: اگر
اَرَادُوْٓا
: وہ چاہیں
اِصْلَاحًا
: بہتری (سلوک)
وَلَهُنَّ
: اور عورتوں کے لیے
مِثْلُ
: جیسے
الَّذِيْ
: جو
عَلَيْهِنَّ
: عورتوں پر (فرض)
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
وَلِلرِّجَالِ
: اور مردوں کے لیے
عَلَيْهِنَّ
: ان پر
دَرَجَةٌ
: ایک درجہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنی تئیں روکے رہیں۔ اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کا جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں۔ اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔ اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے
وَالْمُطَلَّقٰتُ ( اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو) یہ لفظ عام ہے تمام مطلقہ عورتوں کو شامل ہے طلاق رجعی ہو یا بائنہ عورت کو حمل ہو یا نہ ہو عورت سے صحبت ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو ‘ لونڈی ہو یا حرہ۔ حدیث اور اجماع کی وجہ سے لونڈیوں کو اس آیت سے خاص کرلیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ باندی کے لیے دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت بھی دو ہی حیض ہیں یہ روایت ترمذی ‘ ابو داؤد ‘ ابن ماجہ ‘ دارمی نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کی ہے۔ اس بحث کو جو اس حدیث میں ہے اور یہ مسئلہ کہ عموم قرآن کی تخصیص خبر واحد سے کی گئی ہے۔ آیت : الطلاق مرتان کی تفسیر میں ( انشاء اللہ تعالیٰ ہم عنقریب ذکر کریں گے اس آیت کا حکم حاملہ عورتوں کے حق میں آیت : و والات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن کی وجہ سے منسوخ ہے اسی طرح حکم مذکور کا عموم اس عورت کے حق میں بھی منسوخ ہے جس سے صحبت نہ کی گئی ہو کیونکہ اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا ہے : یا ایھا الذین امنوا اذا نکحتم المؤمنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ [ الایۃ ] ۔ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ( وہ اپنے آپ کو روکے رکھیں) اور یتربصن خبر بمعنی امر تاکید کیلئے ہے بانفسھن کے لفظ سے عورتوں کو رکے رہنے پر برانگیختہ کرنا مقصود ہے یعنی وہ اپنی جانوں کو روکے رکھیں اور اس پر غالب رہیں اگرچہ یہ ان کی خواہش کے خلاف ہے۔ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ ( تین حیض آنے تک) اس مدت میں خاوند نہ کرلیں۔ لفظ قرء اضداد میں سے ہے اور مشترک ہے باتفاق اہل لغت حیض اور طہر دونوں پر بولا جاتا ہے۔ امام شافعی (رح) اور امام مالک فرماتے ہیں اور یہی حضرت عائشہ ابن عمرو زید بن ثابت سے مروی ہے کہ یہاں ( اس قرء سے) مراد طہر ہے ابن عمر کی اس روایت کی وجہ سے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دیدی تھی پھر حضرت عمر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا حضور ﷺ سنتے ہی غصہ میں بھر گئے پھر فرمایا اسے چاہئے کہ عورت سے رجوع کرلے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے پھر اسے حیض آئے پھر پاک ہوجائے اس کے بعد اگر طلاق ہی دینی ہو تو طہر کی حالت میں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدے پس یہی وہ عدت ( اور وقت) ہے جس میں عورتوں کو طلاق دینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یہ روایت متفق علیہ ہے اور اس حدیث کو دلیل بنانے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے : یا یھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن (یعنی اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت میں دو ) ود کہتے ہیں کہ لعدتھن میں لام کے معنی وقت کے ہیں یعنی ان کی عدت کے وقت میں دو اور اس حدیث میں اس عدت کا اشارہ اس طہر کی طرف ہے جس میں (عورت کو) ہاتھ نہ لگایا ہو پس اس سے ظاہر ہوگیا کہ ( آیت میں) قروء سے مراد چند طہر ہیں ہم کہتے ہیں کہ استعمال میں لام وقت کے معنوں میں وہاں ہوتا ہے جہاں عہد کا نہ ہو اور یہاں ( لام کو وقتیہ کہنے سے) عدت کا طلاق پر مقدم یا اس کے ساتھ ساتھ ہونا لازم آتا ہے کیونکہ اس کا مقتضا یہ ہے کہ طلاق کا وقوع عدت کے وقت میں ہو ( اور یہ ٹھیک نہیں) بلکہ یہاں لام آئندہ عدت ہونے کے معنی کا فائدہ دینے کے لیے ہے باتفاق تمام اہل عربیہ تاریخ کے متعلق اس طرح کہا کرتے ہیں : خرج لثلٰث بقین من رمضان ہمارے اس قول کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عباس ؓ اور ابن عمر ؓ اس طرح پڑھتے تھے : یا ایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن فی قبل عدتھن اور اسی حدیث میں جو مسلم نے روایت کی ہے موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس طرح پڑھا : واذا طلقتم النساء فطلقوھن بقبل عدتھنیا آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد میں کہ فتلک العدۃ التی امر اللہ بھا ہم یہ کہیں گے کہ اس عدت سے مراد طلاق کا وقت ہے یعنی وہ یہی وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے نہ کہ ( یہ) وہ عدت ہے) جو طلاق کے بعد واجب ہوتی ہے کبھی امام شافعی کی طرف سے ( اس آیت سے) اس طرح بھی حجت پیش کی جاتی ہے کہ ثلاثۃ میں ت ممیز کے مذکر ہونے پر دلالت کرتی ہے اور جس قروء کے معنیٰ حیض کے ہیں وہ مؤنث ہے اور جو معنی طہر ہے وہ مذکر ہے لہٰذا یہاں سے یہ (طہر) ہی مراد ہے اور یہ حجت بھی کچھ نہیں کیونکہ جب کسی چیز کے دو نام ہوں ایک مذکر ہو جیسے بر ( گیہوں کو کہتے ہیں) اور دوسرا مؤنث ہو جیسے حنطۃ ( اس کے بھی معنی گیہوں کے ہیں) اور وہاں حقیقی ثانیت نہ ہو تو اعتبار ان میں سے مذکر کا ہوتا ہے) یہ قاعدہ مسلّمہ ہے اور یہاں اسی طرح ہے کیونکہ حیض مؤنث ہے اور قرء مذکر ہے اور جس وقت تانیث حقیقی ہوتی ہے ( اور لفظ مذکر جیسے شخص ( کے لفظ) سے عورت مراد لے لیں تو اس میں دونوں صورتیں جائز ہوتی ہیں ( امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا قول یہ ہے کہ اس (قرء کے لفظ) سے حیض مراد ہے اس کی چند دلیلیں ہیں ایک تو وہی جو امام شافعی کے ابن عمر کی حدیث کو حجت بنانے میں گذر چکی ہے جو مسلم نے نقل کی ہے اور ابن عباس ؓ اور ابن عمر کی قراءت بھی ہے دوسری دلیل یہ ہے کہ ثلاثۃ کا لفظ ایک خاص عدد ہے نہ اس سے کم ہونے پر دلالت کرتا ہے اور نہ اس سے زیادہ ہونے پر اور طلاق سنت طریقہ کے مطابق بالاجماع طہر ہی میں ہوتی ہے۔ اجماع کے علاوہ اس کی دلیل ابن عمر کی حدیث بھی ہے جو پہلے گذر چکی ہے پس ثلاثۃ قروء حیض ہی میں بنتا ہے نہ کہ طہر میں کیونکہ اس میں شک نہیں کہ یہ طہر جس میں طلاق واقع ہوئی ہے یا تو عدت میں شمار ہی نہ ہوگا حالانکہ یہ اجماع کے بالکل خلاف ہے اس کا کوئی قائل نہیں اس کے باوجود اس وقت تین پر زیادتی لازم آتی ہے یا یہ طہر عدت میں شمار ہوگا تو اب عدت یہ ہوگی کہ دو طہر پورے اور ایک طہر کا چکھ حصہ ( یعنی جس میں طلاق واقع ہوئی ہے) اور یہ تین طہر نہ رہے اور اگر دو طہر پورے اور ایک طہر کے کچھ حصہ پر ثلاثۃ کا اطلاق کردینا جائز ہے تو اللہ تعالیٰ کا قول : فعدتھن ثلٰثۃ اشھر من ثلٰثۃ اشہر کا بھی اطلاق ( دو مہینے پورے اور ایک مہینے کچھ حصہ پر) جائز ہوگا حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں ہے اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول : الحج اشھر معلومات میں اشہر کا اطلاق دو مہینے پورے اور ایک مہینے کے کچھ حصہ پر ہوا ہے ہم کہتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ الحج ثلاثۃ اشہر بلکہ فقط اشہر کہا ہے اور یہاں یہ نہیں کہا کہ قروء بلکہ فرمایا : ثلاثۃ قروء اور یہ اور بھی بڑی دلیل صراحت کے ساتھ ہے پس اس قروء کو تین سے کم پر حمل کرنا مجازاً بھی جائز نہیں ہے کیونکہ ثلاثۃ کا لفظ مجازی معنی لینے سے مانع ہے کہ یہاں معبر پورے پورے قرء میں قرء کا کچھ حصہ معتبر نہیں ہے اس کی دلیل وہی ابن عمر کی حدیث ہے جس سے امام شافعی نے حجت کی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اس طہر میں طلاق دینے کی اجازت نہیں دی جو اس حیض کے متصل تھا جس میں پہلے طلاق دی گئی تھی تاکہ بلا پورے پورے قرء کا فاصلہ ہوئے دو طلاقتیں جمع نہ ہوجائیں۔ تیسری دلیل آنحضرت (علیہ السلام) کا یہ قول ہے : طلاق الامۃ تطلیقتان و عدتھا حیضتان یعنی باندی کی طلاقتیں دو ہیں اور اسکی عدت دو حیض ہیں) باوجودیکہ اس پر اجماع ہے کہ لونڈی حرہ کے عدت کرنے میں مخالف نہیں بلکہ فقط مقدار کے اندر دونوں میں تفاوت ہے پس اس سے ظاہر ہوگیا کہ قرء سے مراد حیض ہی ہیں۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ عدت فقط اس لیے شروع کی گئی ہے تاکہ رحم کا ( بچہ سے) خالی ہونا معلوم ہوجائے اور یہ حیض ہی آنے سے (معلوم) ہوتا ہے نہ کہ طہر سے اور اسی واسطے لونڈی میں استبراء کرنا حیض ہی سے واجب ہے نہ کہ طہر سے۔ پانچویں دلیل یہ ہے کہ اگر قرء بمعنی طہر ہو تو تیسرا حیض آنا شروع ہوتے ہیں مدت ختم ہوجائے گی اور اگر بمعنی حیض ہو تو جب تک عورت تیسرے حیض سے پاک نہ ہو عدت ختم نہ ہوگی پس شک سے عدت نہیں پوری ہوتی۔ ہمارا مذہب خلفاء راشدین۔ عبادلہ۔ ابی بن کعب۔ معاذ بن جبل ابی الدرداء۔ عبادہ بن صامت۔ زید بن ثابت اور ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے ابو داؤد اور نسائی نے معبد جہنی کو بھی انہی میں سے شمار کیا ہے اور تابعین میں سے سعید بن مسیب۔ ابن جبیر۔ عطا۔ طاؤس۔ مجاہد۔ قتادہ۔ عکرمہ۔ ضحاک۔ حسن بصری۔ مقاتل۔ شریک القاضی ‘ ثوری ‘ اوزاعی ‘ ابن شبرمہ ‘ ربیعہ ‘ سدی ‘ ابو عبیدہ ‘ اسحاق سے بھی یہی مروی ہے اور اسی کی طرف امام احمد بن حنبل نے بھی رجوع کیا ہے۔ امام محمد بن حسن موطا میں فرماتے ہیں کہ ہم سے عیسیٰ بن ابی عیسیٰ خیاط نے انہوں نے شعبی سے شعبی نے نبی ﷺ کے تیرہ صحابہ سے روایت کی ہے وہ سب کے سب یہ فرماتے تھے کہ مرد اپنی بیوی کا سب سے زیادہ حقدار ہے یہاں تک کہ وہ تیسرے حیض سے ( پاک ہو کر) غسل کرلے۔ وا اللہ اعلم۔ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِيْٓ اَرْحَامِهِنَّ ( اور عورتوں کو اس کا چھپانا جائز نہیں ہے جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے) یعنی عدت پوری ہونے کی جلدی کرنے اور رجعی طلاق کا شوہری حق باطل کرنے کے لیے حمل اور حیض کو چھپانا جائز نہیں ہے اور اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ اس بارے میں عورت کا قول مقبول ہے۔ اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ( اگر اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں) جز محذوف ہے یعنی اگر وہ اللہ پر ایمان رکھتی ہیں تو نہ چھپائیں کیونکہ مؤمن کی شان یہی ہے کہ حرام فعل کا مرتکب نہ ہو اس سے غرض تاکید اور توبیخ کرنی ہے ‘ وا اللہ اعلم۔ وَبُعُوْلَتُهُنَّ ( اور ان کے خاوند) بعول ‘ بعل کی جمع ہے اور تَ اس میں جمع کے لحاظ سے ہے۔ جیسا کہ عمومۃ میں اور اصل میں بعل کے معنی مالک اور سردار کے ہیں خاوند کا نام اس لیے بعل رکھ دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی بیوی کا کار مختار ہوتا ہے اور ھن کی ضمیر رجعی طلاق والی عورتوں کی طرف ہے اور اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ جیسا کہ اگر ظاہر کو مکرر کرکے دوبارہ اس کی تخصیص کرتے یا بعولۃ مصدر ہے۔ مضاف محذوف کے قائم مقام ہے یعنی اہل بعولتہن۔ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ ( ان کو ( اپنی زوجیت میں) واپس لینے کے حق دار ہیں) یعنی نکاح کی طرف رجعت کرنے کے ساتھ خواہ عورت رضا مند ہو یا نہ ہو اور افعل یہاں بمعنی فاعل ہے یعنی حقیق۔ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا ( اس ( انتظار کرنے کے زمانہ) میں اگر انہیں ( اس رجعت سے) اصلاح منظور ہو) نہ کہ عورت کو ستانا جیسا کہ جاہلیت کے زمانہ میں لوگ کرتے تھے کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا اور جب اس کی عدت پوری ہونے کو ہوتی تھی تو پھر رجعت کرلیتا تھا بعد اس کے پھر طلاق دے دیتا تھا اور اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ رجعت کے لیے اصلاح کا قصد شرط ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے ستانے ہی کے قصد سے رجعت کی تو بھی رجعت نہ ہوگی۔ بلکہ یہ ستانے سے منع کرنے اور اصلاح ( کا قصد کرنے) کی رغبت دلانے کی لیے ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انہیں اصلاح کرنی منظور ہو تو رجعت کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ رجعی طلاق سے رجعت کرنے پر سب کا اتفاق ہے اس میں اختلاف ہے کہ اس عدت میں وطی کرنا بھی جائز ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا قول اظہر روایت میں یہ ہے کہ جائز ہے اور دوسری روایت میں ان کا قول بھی امام شافعی کے قول کے موافق ہے کہ جائز نہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ قاطع یعنی طلاق ہونے کی وجہ سے زوجیت کا علاقہ بالکل جاتا رہا۔ ہم کہتے ہیں کہ طلاق کا عمل عدت پوری ہونے تک بالاتفاق نہیں ہوتاکیون کہ دونوں (میاں بیوی) میں میراث جاری ہوتی ہے اور عورت کی رضا مندی بغیر رجعت جائز اور اس کا نان نفقہ واجب ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ (عدت میں) نکاح قائم رہتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا قول و بعھولتھن بھی دلالت کرتا ہے وہ کہنے ہیں بعل کا اطلاق تو ہوسکتا ہے کہ با عتبار گذشتہ زمانہ کے ہو اور رد کا لفط نکاح نہ رہنے پر دلالت کرتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بعل کے مجازی معنی رد کے مجازی معنی لینے سے بہتر نہیں ہیں کیونکہ اس طرح بولا جاتا ہے ردَّ البیع فی البیع اس سے بالغ کے لیے اختیار ثابت ہوجاتا ہے اس کے علاوہ جب اس آیت میں لفظ بعل اور لفظ رد کے مجازی معنی مراد لینے میں تعارض ہوا تو ان دونوں کا اعتبار کرنا ساقط ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کا قول : فامساک بمعروف اور امسکوھن بمعروف سالم رہا کیونکہ امساک ( نکاح کے) باقی رہنے پر دلالت کرتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ رد کو پہلی حالت کی طرف رد کرنے پر محمول کر لیاجائے اور وہ حالت عورت کی اس طرح ہوتی ہے کہ عدت گذرنے کے بعد وہ حرام نہ ہو پس اس وقت کوئی اشکال نہ ہوگا اس میں ائمہ کا اختلاف ہے کہ رجعت میں ( عورت سے) کہنا شرط ہے یا نہیں۔ امام شافعی کا قول یہ ہے کہ بلا عورت سے کہے رجعت نہ ہوگی ان کے اس قول کی وجہ یہ ہے کہ رجعت ان کے نزدیک بمنزلہ نئے سرے سے نکاح کرنے کے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا قول یہ ہے کہ جب خاوند نے اس سے صحبت کرلی یا اس کا بوسہ لے لیا یا شہوت سے اسے ہاتھ لگایا یا شہوت سے اس کی شرمگاہ کو دیکھ لیا تو ان سب سے رجعت ہوجائے گی جیسے کہ کہنے سے رجعت ہوتی ہے ان کے اس قول کی وجہ وہی ہے جو پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ ان دونوں کے نزدیک رجعت بمنزلہ جدید نکاح کے نہیں ہے بلکہ وہ پہلے ہی نکاح کو باقی رکھنے کے لیے ہے۔ لہٰذا اس میں ایسا فعل کافی ہے جو اس کے باقی رکھنے پر دلالت کرے جیسا کہ خیار ساقط کرنے میں اور امام مالک (رح) کا قول مشہور روایت میں یہ ہے کہ اگر صحبت کرنے سے رجعت کی نیت کرلی ہے تو رجعت ہوجائے گی ورنہ نہ ہوگی اس میں بھی اختلاف ہے کہ رجعت پر گواہ کرنے شرط ہیں یا نہیں۔ امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ شرط ہے اور یہی ایک قول امام شافعی سے بھی مروی ہے اس قول کی بنا ایک آیت پر ہے جو سورة طلاق میں ہے : واشھدو ذویء عدل منکم (کہ تم اپنے میں سے دو منصف گواہ کرلیا کرو) امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک فرماتے ہیں اور ایک صحیح قول امام شافعی کا بھی یہی ہے اور ایک روایت میں امام احمد کا بھی مذہب یہی ہے کہ یہ شرط نہیں ہے اور آیت میں امر استحباب پر محمول ہے کیونکہ اگر ( رجعت پر) گواہ کرنا واجب ہے تو طلاق پر بھی کرنا واجب ہوگا کیونکہ یہ امر اللہ تعالیٰ کے قول : فارقوھن بمعروف کے ساتھ ہی ہے حالانکہ اس کا کوئی فاعل نہیں ہے اور اگر وہاں بھی واجب ہے تو بالاستقلال واجب ہوگا اور فقط رجعت کے لیے شرط نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قول : فامسکوھن بمعروف اور سرحوھن بمعروف عام ہے۔ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ (اور عورتوں کا حق مردوں پر ایسا ہے جیسا عورتوں پر ہے) یعنی عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی ہیں جیسے عورتوں کے ذمہ مردوں کے لیکن وجوب اور مطالبہ کے مستحق ہونے میں نہ کہ جنس میں ( کہ دونوں کے حقوق ایک ہی قسم کے ہوں) ۔ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ ( دستور کے مطابق) یعنی جو شریعت سے معلوم ہو مثلاً نکاح کے حقوق ادا کرنا اور حسن سلوک سے رہنا۔ پس دوسرے کو ستانے کا ارادہ کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ سب کو اصلاح ہی کرنی منظور ہونی چاہئے حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اپنی بیوی کے ( خوش کرنے کے) لیے ویسی ہی زینت کروں جیسے وہ میرے ( خوش کرنے کے) لیے زینت کرنے کو پسند کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولھن مثل الذی علیہن بالمعروف معاویہ قشیری کہتے ہیں میں نے (حضرت ﷺ سے) پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم پر ہماری بیوی کا حق کیا ہے فرمایا جب تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ اور منہ پر نہ مارو اور نہ برا کہو اور نہ اس سے کشیدگی کرو ( ہاں گھر ہی گھر میں) یہ حدیث امام احمد۔ ابو داؤد۔ ابن ماجہ نے نقل کی ہے جعفر بن محمد اپنے باپ سے وہ حضرت جابر سے حجۃ الوداع کے قصہ میں نقل کرتے ہیں کہ عرفہ کے دن رسول اللہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ تم عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ ان کو تم نے ( اپنے قبضہ میں) اللہ کے امان پر لیا ہے اور اللہ ہی کے ایک حکم کی وجہ سے تم نے ان کی شرمگاہوں کو حلال سمجھا ہے تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ایسے شخص کو نہ لٹائیں جو تمہیں ناگوار گذرے اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مارو لیکن حد سے زیادہ نہیں اور تمہارے ذمہ ان کا یہ حق ہے کہ تم دستور کے مطابق انہیں کھانا کپڑا دو یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ان اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا و خیارکم خیارکم النساء ( یعنی سب مسلمانوں میں پورا ایماندار وہ ہے جو سب سے زیادہ خوش خلق ہو اور اچھے لوگ تم میں وہی ہیں جو اپنی بیبیوں سے اچھی طرح رہیں) یہ حدیث ترمذی نے نقل کی اور کہا ہے کہ یہ حسن صحیح ہے ابو داؤد نے بھی یہ حدیث خلقاتک نقل کی ہے اور ترمذی نے ایسی ہی روایت حضرت عائشہ صدیقہ سے نقل کی ہے اور عبد اللہ بن زمعہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے اپنی بیوی کو اس طرح نہ مارا کرے جس طرح غلام کو مارتے ہیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم سب میں اچھا وہی ہے جو اپنی اہل سے اچھی طرح رہے اور میں تم سب سے اچھا ہوں جو اپنی اہل سے اچھی طرح رہتا ہوں۔ یہ حدیث ترمذی اور دارمی نے کی ہے اور ابن ماجہ نے بھی ابن عباس ؓ سے نقل کی ہے ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے میں تم میری وصیت یاد رکھنا۔ کیونکہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں زیادہ ٹیڑھا پن اوپر کی طرف ہوتا ہے پس اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہوگے تو توڑ بیٹھو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا ان کے بارے میں میری وصیت یاد رکھنا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ( اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے) یعنی مردوں کا حق اور مرتبہ زیادہ ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو ( اللہ تعالیٰ کے سوا) سجدہ کرنے کا حکم دیتا و عورت کو اپنے خاوند کے لیے سجدہ کرنے کا ضرور حکم دیتا بوجہ اس حق کے جو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ذمہ مردوں کا کردیا ہے۔ یہ حدیث ابو داؤد نے قیس بن سعد سے نقل کی ہے اور امام احمد نے معاذ بن جبل ؓ سے اور ترمذی نے ابوہریرہ سے اسی طرح نقل کی ہے اور بغوی (رح) نے ابو ظبیان سے اور ام سلمہ ؓ سے روایت کی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس عورت کا خاوند مرتے وقت اس سے راضی ہو تو وہ ضرور بہشت میں جائے گی۔ یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے۔ طلق بن علی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس وقت خاوند اپنی بیوی کو بلائے تو اسے اس کے پاس آجانا چاہئے اگرچہ تنور پر (روٹی پکا رہی) ہو یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے۔ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ ( اور اللہ غالب ہے) یعنی جو کسی پر ظلم کرے اس سے بدلہ لینے پر قادر ہے۔ حَكِيْمٌ ( حکمت والا ہے) یعنی حکمتوں اور مصلحتوں کی وجہ سے احکام کو مشروع کرتا ہے۔
Top