Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 228
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١ؕ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَالْمُطَلَّقٰتُ : اور طلاق یافتہ عورتیں يَتَرَبَّصْنَ : انتظار کریں بِاَنْفُسِهِنَّ : اپنے تئیں ثَلٰثَةَ : تین قُرُوْٓءٍ : مدت حیض وَلَا يَحِلُّ : اور جائز نہیں لَهُنَّ : ان کے لیے اَنْ يَّكْتُمْنَ : وہ چھپائیں مَا : جو خَلَقَ : پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَرْحَامِهِنَّ : ان کے رحم (جمع) اِنْ : اگر كُنَّ يُؤْمِنَّ : ایمان رکھتی ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور الْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ : اور خاوند ان کے اَحَقُّ : زیادہ حقدار بِرَدِّھِنَّ : واپسی ان کی فِيْ ذٰلِكَ : اس میں اِنْ : اگر اَرَادُوْٓا : وہ چاہیں اِصْلَاحًا : بہتری (سلوک) وَلَهُنَّ : اور عورتوں کے لیے مِثْلُ : جیسے الَّذِيْ : جو عَلَيْهِنَّ : عورتوں پر (فرض) بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَلِلرِّجَالِ : اور مردوں کے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر دَرَجَةٌ : ایک درجہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنی تئیں روکے رہیں۔ اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کا جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں۔ اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔ اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے
وَالْمُطَلَّقٰتُ ( اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو) یہ لفظ عام ہے تمام مطلقہ عورتوں کو شامل ہے طلاق رجعی ہو یا بائنہ عورت کو حمل ہو یا نہ ہو عورت سے صحبت ہوچکی ہو یا نہ ہوئی ہو ‘ لونڈی ہو یا حرہ۔ حدیث اور اجماع کی وجہ سے لونڈیوں کو اس آیت سے خاص کرلیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ باندی کے لیے دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت بھی دو ہی حیض ہیں یہ روایت ترمذی ‘ ابو داؤد ‘ ابن ماجہ ‘ دارمی نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کی ہے۔ اس بحث کو جو اس حدیث میں ہے اور یہ مسئلہ کہ عموم قرآن کی تخصیص خبر واحد سے کی گئی ہے۔ آیت : الطلاق مرتان کی تفسیر میں ( انشاء اللہ تعالیٰ ہم عنقریب ذکر کریں گے اس آیت کا حکم حاملہ عورتوں کے حق میں آیت : و والات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن کی وجہ سے منسوخ ہے اسی طرح حکم مذکور کا عموم اس عورت کے حق میں بھی منسوخ ہے جس سے صحبت نہ کی گئی ہو کیونکہ اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا ہے : یا ایھا الذین امنوا اذا نکحتم المؤمنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ [ الایۃ ] ۔ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ( وہ اپنے آپ کو روکے رکھیں) اور یتربصن خبر بمعنی امر تاکید کیلئے ہے بانفسھن کے لفظ سے عورتوں کو رکے رہنے پر برانگیختہ کرنا مقصود ہے یعنی وہ اپنی جانوں کو روکے رکھیں اور اس پر غالب رہیں اگرچہ یہ ان کی خواہش کے خلاف ہے۔ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ ( تین حیض آنے تک) اس مدت میں خاوند نہ کرلیں۔ لفظ قرء اضداد میں سے ہے اور مشترک ہے باتفاق اہل لغت حیض اور طہر دونوں پر بولا جاتا ہے۔ امام شافعی (رح) اور امام مالک فرماتے ہیں اور یہی حضرت عائشہ ابن عمرو زید بن ثابت سے مروی ہے کہ یہاں ( اس قرء سے) مراد طہر ہے ابن عمر کی اس روایت کی وجہ سے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دیدی تھی پھر حضرت عمر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا حضور ﷺ سنتے ہی غصہ میں بھر گئے پھر فرمایا اسے چاہئے کہ عورت سے رجوع کرلے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے پھر اسے حیض آئے پھر پاک ہوجائے اس کے بعد اگر طلاق ہی دینی ہو تو طہر کی حالت میں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدے پس یہی وہ عدت ( اور وقت) ہے جس میں عورتوں کو طلاق دینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یہ روایت متفق علیہ ہے اور اس حدیث کو دلیل بنانے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے : یا یھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن (یعنی اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت میں دو ) ود کہتے ہیں کہ لعدتھن میں لام کے معنی وقت کے ہیں یعنی ان کی عدت کے وقت میں دو اور اس حدیث میں اس عدت کا اشارہ اس طہر کی طرف ہے جس میں (عورت کو) ہاتھ نہ لگایا ہو پس اس سے ظاہر ہوگیا کہ ( آیت میں) قروء سے مراد چند طہر ہیں ہم کہتے ہیں کہ استعمال میں لام وقت کے معنوں میں وہاں ہوتا ہے جہاں عہد کا نہ ہو اور یہاں ( لام کو وقتیہ کہنے سے) عدت کا طلاق پر مقدم یا اس کے ساتھ ساتھ ہونا لازم آتا ہے کیونکہ اس کا مقتضا یہ ہے کہ طلاق کا وقوع عدت کے وقت میں ہو ( اور یہ ٹھیک نہیں) بلکہ یہاں لام آئندہ عدت ہونے کے معنی کا فائدہ دینے کے لیے ہے باتفاق تمام اہل عربیہ تاریخ کے متعلق اس طرح کہا کرتے ہیں : خرج لثلٰث بقین من رمضان ہمارے اس قول کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن عباس ؓ اور ابن عمر ؓ اس طرح پڑھتے تھے : یا ایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن فی قبل عدتھن اور اسی حدیث میں جو مسلم نے روایت کی ہے موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس طرح پڑھا : واذا طلقتم النساء فطلقوھن بقبل عدتھنیا آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد میں کہ فتلک العدۃ التی امر اللہ بھا ہم یہ کہیں گے کہ اس عدت سے مراد طلاق کا وقت ہے یعنی وہ یہی وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے نہ کہ ( یہ) وہ عدت ہے) جو طلاق کے بعد واجب ہوتی ہے کبھی امام شافعی کی طرف سے ( اس آیت سے) اس طرح بھی حجت پیش کی جاتی ہے کہ ثلاثۃ میں ت ممیز کے مذکر ہونے پر دلالت کرتی ہے اور جس قروء کے معنیٰ حیض کے ہیں وہ مؤنث ہے اور جو معنی طہر ہے وہ مذکر ہے لہٰذا یہاں سے یہ (طہر) ہی مراد ہے اور یہ حجت بھی کچھ نہیں کیونکہ جب کسی چیز کے دو نام ہوں ایک مذکر ہو جیسے بر ( گیہوں کو کہتے ہیں) اور دوسرا مؤنث ہو جیسے حنطۃ ( اس کے بھی معنی گیہوں کے ہیں) اور وہاں حقیقی ثانیت نہ ہو تو اعتبار ان میں سے مذکر کا ہوتا ہے) یہ قاعدہ مسلّمہ ہے اور یہاں اسی طرح ہے کیونکہ حیض مؤنث ہے اور قرء مذکر ہے اور جس وقت تانیث حقیقی ہوتی ہے ( اور لفظ مذکر جیسے شخص ( کے لفظ) سے عورت مراد لے لیں تو اس میں دونوں صورتیں جائز ہوتی ہیں ( امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا قول یہ ہے کہ اس (قرء کے لفظ) سے حیض مراد ہے اس کی چند دلیلیں ہیں ایک تو وہی جو امام شافعی کے ابن عمر کی حدیث کو حجت بنانے میں گذر چکی ہے جو مسلم نے نقل کی ہے اور ابن عباس ؓ اور ابن عمر کی قراءت بھی ہے دوسری دلیل یہ ہے کہ ثلاثۃ کا لفظ ایک خاص عدد ہے نہ اس سے کم ہونے پر دلالت کرتا ہے اور نہ اس سے زیادہ ہونے پر اور طلاق سنت طریقہ کے مطابق بالاجماع طہر ہی میں ہوتی ہے۔ اجماع کے علاوہ اس کی دلیل ابن عمر کی حدیث بھی ہے جو پہلے گذر چکی ہے پس ثلاثۃ قروء حیض ہی میں بنتا ہے نہ کہ طہر میں کیونکہ اس میں شک نہیں کہ یہ طہر جس میں طلاق واقع ہوئی ہے یا تو عدت میں شمار ہی نہ ہوگا حالانکہ یہ اجماع کے بالکل خلاف ہے اس کا کوئی قائل نہیں اس کے باوجود اس وقت تین پر زیادتی لازم آتی ہے یا یہ طہر عدت میں شمار ہوگا تو اب عدت یہ ہوگی کہ دو طہر پورے اور ایک طہر کا چکھ حصہ ( یعنی جس میں طلاق واقع ہوئی ہے) اور یہ تین طہر نہ رہے اور اگر دو طہر پورے اور ایک طہر کے کچھ حصہ پر ثلاثۃ کا اطلاق کردینا جائز ہے تو اللہ تعالیٰ کا قول : فعدتھن ثلٰثۃ اشھر من ثلٰثۃ اشہر کا بھی اطلاق ( دو مہینے پورے اور ایک مہینے کچھ حصہ پر) جائز ہوگا حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں ہے اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول : الحج اشھر معلومات میں اشہر کا اطلاق دو مہینے پورے اور ایک مہینے کے کچھ حصہ پر ہوا ہے ہم کہتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ الحج ثلاثۃ اشہر بلکہ فقط اشہر کہا ہے اور یہاں یہ نہیں کہا کہ قروء بلکہ فرمایا : ثلاثۃ قروء اور یہ اور بھی بڑی دلیل صراحت کے ساتھ ہے پس اس قروء کو تین سے کم پر حمل کرنا مجازاً بھی جائز نہیں ہے کیونکہ ثلاثۃ کا لفظ مجازی معنی لینے سے مانع ہے کہ یہاں معبر پورے پورے قرء میں قرء کا کچھ حصہ معتبر نہیں ہے اس کی دلیل وہی ابن عمر کی حدیث ہے جس سے امام شافعی نے حجت کی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اس طہر میں طلاق دینے کی اجازت نہیں دی جو اس حیض کے متصل تھا جس میں پہلے طلاق دی گئی تھی تاکہ بلا پورے پورے قرء کا فاصلہ ہوئے دو طلاقتیں جمع نہ ہوجائیں۔ تیسری دلیل آنحضرت (علیہ السلام) کا یہ قول ہے : طلاق الامۃ تطلیقتان و عدتھا حیضتان یعنی باندی کی طلاقتیں دو ہیں اور اسکی عدت دو حیض ہیں) باوجودیکہ اس پر اجماع ہے کہ لونڈی حرہ کے عدت کرنے میں مخالف نہیں بلکہ فقط مقدار کے اندر دونوں میں تفاوت ہے پس اس سے ظاہر ہوگیا کہ قرء سے مراد حیض ہی ہیں۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ عدت فقط اس لیے شروع کی گئی ہے تاکہ رحم کا ( بچہ سے) خالی ہونا معلوم ہوجائے اور یہ حیض ہی آنے سے (معلوم) ہوتا ہے نہ کہ طہر سے اور اسی واسطے لونڈی میں استبراء کرنا حیض ہی سے واجب ہے نہ کہ طہر سے۔ پانچویں دلیل یہ ہے کہ اگر قرء بمعنی طہر ہو تو تیسرا حیض آنا شروع ہوتے ہیں مدت ختم ہوجائے گی اور اگر بمعنی حیض ہو تو جب تک عورت تیسرے حیض سے پاک نہ ہو عدت ختم نہ ہوگی پس شک سے عدت نہیں پوری ہوتی۔ ہمارا مذہب خلفاء راشدین۔ عبادلہ۔ ابی بن کعب۔ معاذ بن جبل ابی الدرداء۔ عبادہ بن صامت۔ زید بن ثابت اور ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے ابو داؤد اور نسائی نے معبد جہنی کو بھی انہی میں سے شمار کیا ہے اور تابعین میں سے سعید بن مسیب۔ ابن جبیر۔ عطا۔ طاؤس۔ مجاہد۔ قتادہ۔ عکرمہ۔ ضحاک۔ حسن بصری۔ مقاتل۔ شریک القاضی ‘ ثوری ‘ اوزاعی ‘ ابن شبرمہ ‘ ربیعہ ‘ سدی ‘ ابو عبیدہ ‘ اسحاق سے بھی یہی مروی ہے اور اسی کی طرف امام احمد بن حنبل نے بھی رجوع کیا ہے۔ امام محمد بن حسن موطا میں فرماتے ہیں کہ ہم سے عیسیٰ بن ابی عیسیٰ خیاط نے انہوں نے شعبی سے شعبی نے نبی ﷺ کے تیرہ صحابہ سے روایت کی ہے وہ سب کے سب یہ فرماتے تھے کہ مرد اپنی بیوی کا سب سے زیادہ حقدار ہے یہاں تک کہ وہ تیسرے حیض سے ( پاک ہو کر) غسل کرلے۔ وا اللہ اعلم۔ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِيْٓ اَرْحَامِهِنَّ ( اور عورتوں کو اس کا چھپانا جائز نہیں ہے جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے) یعنی عدت پوری ہونے کی جلدی کرنے اور رجعی طلاق کا شوہری حق باطل کرنے کے لیے حمل اور حیض کو چھپانا جائز نہیں ہے اور اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ اس بارے میں عورت کا قول مقبول ہے۔ اِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ( اگر اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں) جز محذوف ہے یعنی اگر وہ اللہ پر ایمان رکھتی ہیں تو نہ چھپائیں کیونکہ مؤمن کی شان یہی ہے کہ حرام فعل کا مرتکب نہ ہو اس سے غرض تاکید اور توبیخ کرنی ہے ‘ وا اللہ اعلم۔ وَبُعُوْلَتُهُنَّ ( اور ان کے خاوند) بعول ‘ بعل کی جمع ہے اور تَ اس میں جمع کے لحاظ سے ہے۔ جیسا کہ عمومۃ میں اور اصل میں بعل کے معنی مالک اور سردار کے ہیں خاوند کا نام اس لیے بعل رکھ دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی بیوی کا کار مختار ہوتا ہے اور ھن کی ضمیر رجعی طلاق والی عورتوں کی طرف ہے اور اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ جیسا کہ اگر ظاہر کو مکرر کرکے دوبارہ اس کی تخصیص کرتے یا بعولۃ مصدر ہے۔ مضاف محذوف کے قائم مقام ہے یعنی اہل بعولتہن۔ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ ( ان کو ( اپنی زوجیت میں) واپس لینے کے حق دار ہیں) یعنی نکاح کی طرف رجعت کرنے کے ساتھ خواہ عورت رضا مند ہو یا نہ ہو اور افعل یہاں بمعنی فاعل ہے یعنی حقیق۔ فِيْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا ( اس ( انتظار کرنے کے زمانہ) میں اگر انہیں ( اس رجعت سے) اصلاح منظور ہو) نہ کہ عورت کو ستانا جیسا کہ جاہلیت کے زمانہ میں لوگ کرتے تھے کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا اور جب اس کی عدت پوری ہونے کو ہوتی تھی تو پھر رجعت کرلیتا تھا بعد اس کے پھر طلاق دے دیتا تھا اور اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ رجعت کے لیے اصلاح کا قصد شرط ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے ستانے ہی کے قصد سے رجعت کی تو بھی رجعت نہ ہوگی۔ بلکہ یہ ستانے سے منع کرنے اور اصلاح ( کا قصد کرنے) کی رغبت دلانے کی لیے ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انہیں اصلاح کرنی منظور ہو تو رجعت کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ رجعی طلاق سے رجعت کرنے پر سب کا اتفاق ہے اس میں اختلاف ہے کہ اس عدت میں وطی کرنا بھی جائز ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا قول اظہر روایت میں یہ ہے کہ جائز ہے اور دوسری روایت میں ان کا قول بھی امام شافعی کے قول کے موافق ہے کہ جائز نہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ قاطع یعنی طلاق ہونے کی وجہ سے زوجیت کا علاقہ بالکل جاتا رہا۔ ہم کہتے ہیں کہ طلاق کا عمل عدت پوری ہونے تک بالاتفاق نہیں ہوتاکیون کہ دونوں (میاں بیوی) میں میراث جاری ہوتی ہے اور عورت کی رضا مندی بغیر رجعت جائز اور اس کا نان نفقہ واجب ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ (عدت میں) نکاح قائم رہتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا قول و بعھولتھن بھی دلالت کرتا ہے وہ کہنے ہیں بعل کا اطلاق تو ہوسکتا ہے کہ با عتبار گذشتہ زمانہ کے ہو اور رد کا لفط نکاح نہ رہنے پر دلالت کرتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بعل کے مجازی معنی رد کے مجازی معنی لینے سے بہتر نہیں ہیں کیونکہ اس طرح بولا جاتا ہے ردَّ البیع فی البیع اس سے بالغ کے لیے اختیار ثابت ہوجاتا ہے اس کے علاوہ جب اس آیت میں لفظ بعل اور لفظ رد کے مجازی معنی مراد لینے میں تعارض ہوا تو ان دونوں کا اعتبار کرنا ساقط ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کا قول : فامساک بمعروف اور امسکوھن بمعروف سالم رہا کیونکہ امساک ( نکاح کے) باقی رہنے پر دلالت کرتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ رد کو پہلی حالت کی طرف رد کرنے پر محمول کر لیاجائے اور وہ حالت عورت کی اس طرح ہوتی ہے کہ عدت گذرنے کے بعد وہ حرام نہ ہو پس اس وقت کوئی اشکال نہ ہوگا اس میں ائمہ کا اختلاف ہے کہ رجعت میں ( عورت سے) کہنا شرط ہے یا نہیں۔ امام شافعی کا قول یہ ہے کہ بلا عورت سے کہے رجعت نہ ہوگی ان کے اس قول کی وجہ یہ ہے کہ رجعت ان کے نزدیک بمنزلہ نئے سرے سے نکاح کرنے کے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا قول یہ ہے کہ جب خاوند نے اس سے صحبت کرلی یا اس کا بوسہ لے لیا یا شہوت سے اسے ہاتھ لگایا یا شہوت سے اس کی شرمگاہ کو دیکھ لیا تو ان سب سے رجعت ہوجائے گی جیسے کہ کہنے سے رجعت ہوتی ہے ان کے اس قول کی وجہ وہی ہے جو پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ ان دونوں کے نزدیک رجعت بمنزلہ جدید نکاح کے نہیں ہے بلکہ وہ پہلے ہی نکاح کو باقی رکھنے کے لیے ہے۔ لہٰذا اس میں ایسا فعل کافی ہے جو اس کے باقی رکھنے پر دلالت کرے جیسا کہ خیار ساقط کرنے میں اور امام مالک (رح) کا قول مشہور روایت میں یہ ہے کہ اگر صحبت کرنے سے رجعت کی نیت کرلی ہے تو رجعت ہوجائے گی ورنہ نہ ہوگی اس میں بھی اختلاف ہے کہ رجعت پر گواہ کرنے شرط ہیں یا نہیں۔ امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ شرط ہے اور یہی ایک قول امام شافعی سے بھی مروی ہے اس قول کی بنا ایک آیت پر ہے جو سورة طلاق میں ہے : واشھدو ذویء عدل منکم (کہ تم اپنے میں سے دو منصف گواہ کرلیا کرو) امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک فرماتے ہیں اور ایک صحیح قول امام شافعی کا بھی یہی ہے اور ایک روایت میں امام احمد کا بھی مذہب یہی ہے کہ یہ شرط نہیں ہے اور آیت میں امر استحباب پر محمول ہے کیونکہ اگر ( رجعت پر) گواہ کرنا واجب ہے تو طلاق پر بھی کرنا واجب ہوگا کیونکہ یہ امر اللہ تعالیٰ کے قول : فارقوھن بمعروف کے ساتھ ہی ہے حالانکہ اس کا کوئی فاعل نہیں ہے اور اگر وہاں بھی واجب ہے تو بالاستقلال واجب ہوگا اور فقط رجعت کے لیے شرط نہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قول : فامسکوھن بمعروف اور سرحوھن بمعروف عام ہے۔ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ (اور عورتوں کا حق مردوں پر ایسا ہے جیسا عورتوں پر ہے) یعنی عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی ہیں جیسے عورتوں کے ذمہ مردوں کے لیکن وجوب اور مطالبہ کے مستحق ہونے میں نہ کہ جنس میں ( کہ دونوں کے حقوق ایک ہی قسم کے ہوں) ۔ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ ( دستور کے مطابق) یعنی جو شریعت سے معلوم ہو مثلاً نکاح کے حقوق ادا کرنا اور حسن سلوک سے رہنا۔ پس دوسرے کو ستانے کا ارادہ کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ سب کو اصلاح ہی کرنی منظور ہونی چاہئے حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اپنی بیوی کے ( خوش کرنے کے) لیے ویسی ہی زینت کروں جیسے وہ میرے ( خوش کرنے کے) لیے زینت کرنے کو پسند کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولھن مثل الذی علیہن بالمعروف معاویہ قشیری کہتے ہیں میں نے (حضرت ﷺ سے) پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم پر ہماری بیوی کا حق کیا ہے فرمایا جب تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ اور جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ اور منہ پر نہ مارو اور نہ برا کہو اور نہ اس سے کشیدگی کرو ( ہاں گھر ہی گھر میں) یہ حدیث امام احمد۔ ابو داؤد۔ ابن ماجہ نے نقل کی ہے جعفر بن محمد اپنے باپ سے وہ حضرت جابر سے حجۃ الوداع کے قصہ میں نقل کرتے ہیں کہ عرفہ کے دن رسول اللہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ تم عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ ان کو تم نے ( اپنے قبضہ میں) اللہ کے امان پر لیا ہے اور اللہ ہی کے ایک حکم کی وجہ سے تم نے ان کی شرمگاہوں کو حلال سمجھا ہے تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ایسے شخص کو نہ لٹائیں جو تمہیں ناگوار گذرے اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مارو لیکن حد سے زیادہ نہیں اور تمہارے ذمہ ان کا یہ حق ہے کہ تم دستور کے مطابق انہیں کھانا کپڑا دو یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ان اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا و خیارکم خیارکم النساء ( یعنی سب مسلمانوں میں پورا ایماندار وہ ہے جو سب سے زیادہ خوش خلق ہو اور اچھے لوگ تم میں وہی ہیں جو اپنی بیبیوں سے اچھی طرح رہیں) یہ حدیث ترمذی نے نقل کی اور کہا ہے کہ یہ حسن صحیح ہے ابو داؤد نے بھی یہ حدیث خلقاتک نقل کی ہے اور ترمذی نے ایسی ہی روایت حضرت عائشہ صدیقہ سے نقل کی ہے اور عبد اللہ بن زمعہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے اپنی بیوی کو اس طرح نہ مارا کرے جس طرح غلام کو مارتے ہیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم سب میں اچھا وہی ہے جو اپنی اہل سے اچھی طرح رہے اور میں تم سب سے اچھا ہوں جو اپنی اہل سے اچھی طرح رہتا ہوں۔ یہ حدیث ترمذی اور دارمی نے کی ہے اور ابن ماجہ نے بھی ابن عباس ؓ سے نقل کی ہے ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے میں تم میری وصیت یاد رکھنا۔ کیونکہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں زیادہ ٹیڑھا پن اوپر کی طرف ہوتا ہے پس اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہوگے تو توڑ بیٹھو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا ان کے بارے میں میری وصیت یاد رکھنا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ( اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے) یعنی مردوں کا حق اور مرتبہ زیادہ ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو ( اللہ تعالیٰ کے سوا) سجدہ کرنے کا حکم دیتا و عورت کو اپنے خاوند کے لیے سجدہ کرنے کا ضرور حکم دیتا بوجہ اس حق کے جو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ذمہ مردوں کا کردیا ہے۔ یہ حدیث ابو داؤد نے قیس بن سعد سے نقل کی ہے اور امام احمد نے معاذ بن جبل ؓ سے اور ترمذی نے ابوہریرہ سے اسی طرح نقل کی ہے اور بغوی (رح) نے ابو ظبیان سے اور ام سلمہ ؓ سے روایت کی ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس عورت کا خاوند مرتے وقت اس سے راضی ہو تو وہ ضرور بہشت میں جائے گی۔ یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے۔ طلق بن علی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس وقت خاوند اپنی بیوی کو بلائے تو اسے اس کے پاس آجانا چاہئے اگرچہ تنور پر (روٹی پکا رہی) ہو یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے۔ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ ( اور اللہ غالب ہے) یعنی جو کسی پر ظلم کرے اس سے بدلہ لینے پر قادر ہے۔ حَكِيْمٌ ( حکمت والا ہے) یعنی حکمتوں اور مصلحتوں کی وجہ سے احکام کو مشروع کرتا ہے۔
Top