Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 25
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ : اور خوشخبری دو جو لوگ آمَنُوْا : ایمان لائے وَ عَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ : اور انہوں نے عمل کئے نیک اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لئے جَنَّاتٍ : باغات تَجْرِیْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے سے الْاَنْهَارُ : نہریں كُلَّمَا : جب بھی رُزِقُوْا : کھانے کو دیا جائے گا مِنْهَا : اس سے مِنْ ۔ ثَمَرَةٍ : سے۔ کوئی پھل رِزْقًا : رزق قَالُوْا : وہ کہیں گے هٰذَا الَّذِیْ : یہ وہ جو کہ رُزِقْنَا : ہمیں کھانے کو دیا گیا مِنْ : سے قَبْلُ : پہلے وَأُتُوْا : حالانکہ انہیں دیا گیا ہے بِهٖ : اس سے مُتَشَابِهًا : ملتا جلتا وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِیْهَا : اس میں اَزْوَاجٌ : بیویاں مُطَهَّرَةٌ : پاکیزہ وَهُمْ : اور وہ فِیْهَا : اس میں خَالِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لیے (نعمت کے) باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ جب انہیں ان میں سے کسی قسم کا میوہ کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے، یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے دیا گیا تھا۔ اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے
وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ( اور اے پیغمبر انہیں بشارت دو جو ایمان لائے) یہ جملہ جملۂ سابقہ پر عطف ہے۔ عادت الٰہی قرآن پاک میں اسی طرح جاری ہے کہ ترہیب کے بعد ترغیب اور ترغیب کے بعد ترہیب ذکر کی جاتی ہے عطف فعل کا فعل پر نہیں تاکہ دونوں میں کوئی وجہ مشارکت تلاش کرنے کی ضرورت پڑے۔ یا فاتّقُوْا پر عطف ہے یعنی مراد یہ ہے کہ ایمان لے آؤ اور آگ سے بچو اور ڈرو اور جنت کی بشارت پاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے خود ان ہی کو براہ راست بشارت سے یاد نہیں فرمایا یعنی اس طرح نہیں فرمایا کہ بشارت پاؤ بلکہ فرمایا کہ ” بشارت دو “ وجہ یہ کہ ایمان اور تقویٰ کے سبب ان کی تعظیم شان منظور ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ اب یہ اس کے سزاوار ہیں کہ انہیں ہر شخص بشارت اور مبارک باد دے ( ظاہر ہے کہ خود انہیں بشارت دینے میں یہ بات حاصل نہ ہوتی گویا یہ معنی ہوئے کہ اے مخاطب انہیں مبارکباد دے کیونکہ یہ اس کے لائق و مستحق ہیں) بشارۃ خوش کرنے والی خبر کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قول فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍمیں لفظ بشارت بطور استہزاء مستعمل ہوا ہے بعض نے کہا ہے کہ بشارۃ کا استعمال اچھی اور بری دونوں خبروں میں آتا ہے مگر اچھی خبر میں زیادہ ہے۔ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ( اور انہوں نے نیک عمل کیے) لفظ صالحات ان غالبہ صفات میں سے ہے جو قائم مقام اسماء کے ہوتے ہیں اور اعمال صالحہ ان عملوں کو کہتے ہیں جن کو شرع نے اچھا کہا ہو اور لفظ صالحات کو مؤنث ذکر کرنا اس بناء پر ہے کہ یہ لفظ خصلت محذوف کی صفت ہے۔ علامہ بغوی نے کہا ہے کہ معاذ ؓ نے فرمایا کہ عمل صالح وہ ہے جس میں چار چیزیں ہوں علم ‘ نیت ‘ صبر اور اخلاص۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان ؓ نے وَعَمِلُو الصَّالِحَاتپڑھ کر فرمایا کہ عمل صالح کے یہ معنی ہیں کہ ریاء سے خالی کرکے خالص لوجہ اللہ کرے اس آیت سے یہ معلوم ہوگیا کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت کی بشارت کے استحقاق کا پورا سبب ایمان اور عمل دونوں وصف ہیں۔ اَنَّ لَھُمْ ( کہ بیشک ان کے لیے) ( ترکیب میں) یا تو منصوب بنزع حرف جر ہے اور بَشِّرْسے متعلق ہے ‘ یا مجرور کے حرف جر باء مقدر ہے۔ جَنّٰتٍ (جنتیں ہیں) جَنّٰتٍ جنۃ کی جمع ہے جس کے معنی باغ کے ہیں کیونکہ باغ بھی درختوں سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ (1) [ لغت میں جن کا معنی ہے چھپانا گھنے باغ کو جس میں سایہ دار درخت بکثرت ہوں جنت کہتے ہیں ] تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا ( جن کے نیچے ( نہریں) بہ رہی ہیں) جنت کے نیچے نہریں بہنے کا یہ مطلب کہ جنت کے درختوں اور مکانوں کے نیچے بہہ رہی ہیں۔ الْاَنْهٰرُ ( نہریں) اور نہروں کے بہنے کے یہ معنی کہ ان میں پانی بہہ رہا ہے۔ یا تو لفظ ماء (پانی) انہار سے پہلے محذوف ہے یا مجاز لغوی اور یا اسناد میں مجاز ہے اَلْاَنْھَار میں الف اور لام جنس کا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جنت کی نہریں بغیر کھائیوں اور گڑھوں کے بہتی ہیں۔ (2) [ یعنی جس طرح دنیا کی نہریں گڑھوں میں چلتی ہیں اسی طرح جنت کی نہریں نہیں بہتیں ] اس حدیث کو ابن مبارک اور ابن جریر اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَـــرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوْا ھٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۙ : (جب انہیں ان میں کا کوئی میوہ کھانے کو ملے گا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے مل چکا ہے) قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ یا تو جنت کی دوسری صفت ہے یا خبر ہے مبتدا محذوف کی تقدیر ثانی پر یہ معنی ہونگے کہ جب انہیں جنتی پھل کھلائے جائیں گے تو وہ یہ کہیں گے یا جملہ مستانفہ ہے جو جنت کے میوہ جات کے حال کی توضیح کے لیے لایا گیا ہے اور کُلَّمَا ظرف ہونے کی وجہ ہے منصوب ہے اور رزْقًا رُزِقُوْاکا مفعول بہ ہے اور لفظ مِن دونوں جگہ یا تو ابتدائیہ ہے یا پہلے مقام پر تو ابتدائیہ اور دوسرے موضع میں بیانیہ ہے اور دونوں من مع اپنے مجرور کے مل کر قائم مقام حال کے ہیں۔ لفظ ھٰذا سے نوع رزق کی طرف اشارہ فرمایا ہے یعنی اس نوع کے افراد پے در پے موجود ہونے کے سبب ہمیشہ موجود رہیں گے۔ اَلَّذِیْ رُزِقْنَا سے پہلے لفظ مثل محذوف ہے اس وقت یہ معنی ہوں گے کہ ” یہ پہلے رزق کی مثل ہے “ لفظ مثل تشبیہ کے بلیغ کرنے کے لیے حذف کردیا گیا گویا یہ دوسری دفعہ کا میوہ بعینہٖ پہلا ہی ہے۔ مِنْ قَبْلُ اس سے پہلے یعنی دنیا میں جنت کے ثمرات اور جنتیں دنیا کی نعمتوں کی مشابہ اس لیے پیدا کی گئی ہیں کہ طبیعتیں غیر مالوف ہونے کے سبب متنفر نہ ہوں اور وہاں کی چیزوں کی فضیلتیں خوب ظاہر ہوں ( اس لیے کہ اگر وہاں کے پھل وغیرہ یہاں کے پھلوں کے مشابہ نہ ہوتے اور بالکل نئی قسم کے ہوتے تو ان پر ان نعمتوں کی زیادتی و ترجیح ظاہر نہ ہوتی کیونکہ ترجیح و فضیلت ایک جنس کی چیزوں میں ہوا کرتی ہے) بعض نے کہا ہے کہ جنت کے پھل رنگ و روپ میں تو ایک دوسرے کے مشابہ اور دیکھنے میں یکساں مگر ذائقہ میں مختلف ہیں اور جنتی پھلوں کے کھاتے وقت رُزِقْنَا منْ قبلاس لئے کہیں گے کہ وہ صورۃً سب پھلوں کو یکساں دیکھیں گے مگر جب ذائقہ میں نمایاں تفاوت معلوم کریں گے اور ‘ اور ہی مزا پائیں گے تو بہت ہی خوش ہوں گے۔ وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا ۭ (اور انہیں وہ پھل ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیئے جائیں گے) پہلی تفسیر پر جبکہ دنیا کے پھلوں سے تشبیہ دی جائے تو بِہٖ کی ضمیر رزق جنت اور دنیا کی طرف راجع ہوگی اور یہ آیت جملہ معترضہ ہے کہ مضمون سابق کی توضیح و تاکید کرتا ہے ابن عباس اور مجاہد ؓ نے فرمایا ہے کہ مُتَشَابِھًا کے یہ معنی ہیں کہ رنگ میں تو وہ پھل یکساں ہوں گے مگر مزہ میں مختلف ہوں گے حسن اور قتادہ (رح) نے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ جنت کے پھل نفاست اور ستھرائی میں ایک دوسرے کے مثل ہونگے یعنی وہاں کے سارے پھل بہتر اور عمدہ ہونگے کہ ان میں نقص کا نام تک نہ ہوگا ( مطلب یہ کہ جیسے دنیا کے پھل ہیں کہ کوئی اچھا اور کوئی بڑا ‘ کوئی پکا ‘ کوئی کچا ‘ وہاں کے پھل ایسے نہ ہونگے بلکہ سب کے سب اعلیٰ ہی قسم کے ہونگے) ۔ علامہ بغوی نے اپنی سند سے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنتی سب کچھ کھائیں پئیں گے لیکن پیشاب پاخانے اور منہ اور ناک کی ریزش اور جملہ آلائش سے پاک صاف ہونگے اور انہیں حمد اور تسبیح ایسی الہام کی جائے گی جیسے سانس کا آنا ( یعنی تسبیح وتحمید بجائے سانس لینے کے ہوجائے گی) ان کا کھانا پینا ڈکار کے ذریعے سے ہضم ہوجایا کرے گا اور پسینہ مشک کی خوشبو کا سا ہوگا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے اس آیۃ کے ایک یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ ان اعمال و معارف الٰہیکا ثواب ہے جو ہمیں دنیا میں عطا کئے گئے تھے۔ اس کی نظیر کلام پاک میں بھی ہے جیسا کہ فرمایا : ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْن ( یعنی چکھو جو تم کرتے تھے) ۔ امام ترمذی (رح) نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت کی مٹی نہایت پاکیزہ اور پانی نہایت شیریں ہے اور یاد رکھو کہ جنت بالکل ہموار میدان ہے اسکے درخت تسبیح تحمید اور تکبیر ہیں۔ اس تفسیر کے بموجب وَاُوْتُوْا بِہٖ مُتََْابِھًا کے یہ معنی ہونگے کہ وہ ثواب شرف و فضیلت میں ان کے معارف و طاعات کے مشابہ ہوگا اور جیسا کہ اعمال میں باہم تفاوت ہوگا ویسا ہی اس ثواب میں ہوگا۔ امام ترمذی (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جنت میں سو درجے ہیں ہر درجے کی مسافت ایک سے دوسرے درجہ تک سو برس کی ہے۔ عبادہ بن الصامت ؓ سے بھی یہی مضمون مروی ہے مگر اس میں اتنا اور بھی ہے کہ ہر دو درجوں کے مابین ایسی مسافت ہے جیسی آسمان و زمین کے درمیان کی۔ صاحب مصابیح نے اس حدیث کو صحاح میں اور ترمذی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ وَلَھُمْ فِيْهَآ ( اور وہاں جنت میں ان کے لیے ( بیبیاں پاک صاف) ہونگیں۔ اَزْوَاجٌ ( بیبیاں ازواج سے مراد حوریں ہیں۔ حسن (رح) نے فرمایا کہ اَزْوَاجٌسے مراد یہی تمہاری بوڑھیاں اندھی چندھی ہیں اور وہاں دنیا کی نجاستوں سے پاک صاف کردی جائیں گی۔ مُّطَهَّرَةٌ ( پاک صاف) یعنی پیشاب ‘ پاخانہ ‘ حیض ‘ نفاس ‘ تھوک ‘ سنک ‘ منی اور ہر نجاست اور میل کچیل اور برے اخلاق سے ( پاک صاف کی گئی ہیں تطہیر کا لفظ جیسا کہ اجسام کے پاک کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے ایسا ہی اس کا اطلاق افعال و اخلاق کی تہذیب پر بھی آتا ہے۔ لفظ مطہرۃ میں بہ نسبت طاہرہ مبالغہ زیادہ ہے کیونکہ اس میں اشارہ ہے کہ اللہ نے خود انہیں پاک کیا ہے۔ لفظ زوج کا اطلاق مرد اور عورت دونوں پر آتا ہے اور اصل لغت میں زوج اسے کہتے ہیں کہ جس کا کوئی جوڑ ہو اسی کی جنس سے جیسے موزہ ‘ جوتہ وغیرہ ‘ وغیرہ۔ وَّھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (اور وہ ان ( باغوں) میں ہمیشہ رہیں گے) ( مطلب یہ کہ) نہ تو وہاں موت آئے گی اور نہ وہاں سے نکلیں گے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہیں گے اور یہ اس لیے فرما دیا کہ پہلے سے جنت کی نعمتوں کا بیان چلا آرہا تھا تو سننے والے کو اس سے یہ وہم ہوسکتا تھا کہ دیکھئے یہ نعمتیں ہمیشہ کے لیے باقی رہیں گی یا دنیا کی نعمتوں کی طرح فنا اور زائل ہوجائیں گی تو یہ خوف اس عیش کو مکدّر کرنے والا تھا اس لیے اسے دفع فرمایا کہ تم اطمینان رکھو تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ علامہ بغوی نے اپنی سند سے بطریق بخاری ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو گروہ جنت میں پہلے داخل ہوگا وہ ایسا چمکتا دمکتا ہوگا جیسا چودھویں رات کا چاند اور اس کے بعد جو داخل ہوگا وہ ایسا چمکتا ہوا ہوگا جیسا آسمان میں سب سے زیادہ چمکتا ستارہ۔ جنتی پیشاب، پاخانہ، تھوک، سنک اور سب آلائشوں سے پاک صاف ہو نگے کنگھیاں ان کی سونے کی ‘ پسینہ ان کا مشک کی خوشبو کا، انگیٹھیاں ان کی خوشبو کی ہونگی اور بیویاں ان کی حور عین (یعنی نہایت خوبصورت ‘ حسین ‘ بڑی بڑی آنکھوں والی ہوں گی اور ان سب کے اخلاق ایک جیسے ہوں گے) یعنی سب سے ملے جلے ہونگے جیسے ایک شخص خود اپنی ذات سے محبت رکھتا ہے اور غیض نہیں رکھتا اور ایک سی تمنائیں ہوتی ہیں ایسے ہی وہ سب کے سب ہونگے) اور قد ان سب کا مثل قد آدم ( علیہ السلام) 60 گز کا ہوگا۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اوّل جو گروہ جنت میں جائے گا انکے چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے ہونگے اور دوسرا گروہ ایسا ہوگا جیسا آسمان میں روشن ستارہ ہر شخص کی دو بیویاں ہونگی اور ہر ایک پر ستّر حُلّے ہونگے اور بوجہ نفاست کے انکی پنڈلیوں کی ہڈی کا گودہ گوشت اور خون اور لباسوں کے اوپر سے نظر آئیگا۔ انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر جنت کی کوئی عورت زمین پر جھانک بھی لے تو آسمان سے زمین تک اس کی چمک اور خوشبوپھیل جائے اور وہاں کی حور کے سر کا دوپٹہ بھی دنیا اور اس کی ساری نعمتوں سے بہتر ہے۔ اس حدیث کو بھی بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے اسامہ بن زید ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ( ہم سب سے) فرمایا کوئی ہے جو جنت کے حاصل کرنے کے لیے تیار اور مستعد ہو بیشک جنت ایسی شے ہے کہ اس کا کسی دل میں خطرہ تک نہیں گذرا اور قسم ہے رب کعبہ کی کہ جنت ایک چمکتا ہوا نور ‘ مہکتی پھلواری ‘ اونچے اونچے مضبوط محل ‘ بہتی نہریں ‘ تیار اور پکے میوے، خوبصورت گوری گوری بیویاں اور طرح طرح کے بیشمار لباس اور ہمیشہ رہنے کی جگہ اور انواع انواع کے میوے سبزے لباس بیل بوٹے اور طرح طرح کی نعمتیں ہیں سب نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سب کے لیے تیار اور مستعد ہیں۔ فرمایا انشاء اللہ کہو۔ اس حدیث کو بغوی نے روایت کیا ہے ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنتی سب کے سب بےرونگٹے بےڈاڑھی، سرمگیں چشم ہونگے نہ ان کی جوانی ختم ہوگی نہ ان کا لباس پرانا ہوگا۔ یہی مضمون مسلم کی حدیث میں ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ جنت میں ایک بازار ہوگا کہ اس میں خریدو فروخت تو کچھ ہوگی نہیں مگر اس میں عورتوں اور مردوں کی صورتیں ہوں گے جو کوئی جس صورت کو چاہے گا اس میں داخل ہوجائے اور جنت میں حور عین کا ایک مجمع ہوگا کہ وہ سب کی سب اپنی بےمثل آواز سے پکار پکار کر کہیں گی کہ ہم سب کی سب ہمیشہ رہیں گی۔ کبھی ہلاک نہ ہونگی اور عیش و عشرت سے رہیں گی نہ ہم پر کبھی تنگی آئے گی نہ فقرہ و فاقہ نہ غیظ و غضب بلکہ ہم سب ہنسی خوشی رہیں گی ان مردوں کے لیے بڑی خوشی ہے جو ہمارے لیے ہوں اور اہم ان کے لیے۔ اس حدیث کو ترمذی نے علی ؓ سے اور احمد بن منیع نے ابو معاویہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے اور مسلم نے حضرت انس ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت میں ایک بازار ہے کہ جنتی ہر جمعہ وہاں آیا کریں گے اور شمالی ہوا چل کر ان کے چہروں کو زیادہ حسین بنا دے گی اور ان کے فاخرہ لباس کو طرح طرح کی خوشبوؤں سے معطر کردے گی تو وہ حسن و جمال میں پہلے سے بدرجہا بڑھ جائیں گے اسی حالت میں جب اپنی بیویوں کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گی آج تو تم بہت ہی حسین و جمیل ہو وہ جواب دیں گے کہ واللہ ہم تمہیں بھی زیادہ خوبصورت پاتے ہیں۔ (جامع ترمذی ‘ ج 2) میں کہتا ہوں چونکہ اہل دنیا کی نظر نعمتوں میں سے صرف پہننے، کھانے اور نکاح کرنے ہی پر ہے ( دوسری نعمتوں کی طرف دنیا میں نہ موجود ہونے کے سبب نظر نہیں جاتی اور جو کوئی بیان کرے تو ذہن بھی اس طرف منتقل نہیں ہوسکتا) اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاک ﷺ نے صرف ایسی ہی چیزوں کے ذکر پر اکتفا فرمایا اور جنت کی نعمتیں تو بڑی بڑی ہیں۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کی ہیں کہ انہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل پر خطرہ گذرا دلیل اگر چاہتے ہو تو یہ ہے کہ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ( یعنی کوئی نفس نہیں جانتا جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لیے وہاں چھپائی گئی ہے) اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور نیز حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ فخر عالم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جنت میں اہل جنت سے فرمائے گا کہ اب میں تم پر رضا مندی اتارتا ہوں کبھی تم سے ناراض نہ ہونگا۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور ایک طویل حدیث میں مسلم نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک جنت میں اپنے اور جنتیوں کے درمیان سے حجاب اٹھائے گا کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کی زیارت کریں گے اور اس کے دیدار سے زیادہ کوئی شے کبھی ان کے نزدیک پسندیدہ نہ ہوگی پھر رسول اکرم ﷺ نے اس آیۃ کو پڑھا : لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰٰی وَ زِیَادَۃٌ ( یعنی نیک کاروں کے لے ئے حسنیٰ یعنی جنت اور زیادتی ہے ( زیادتی سے مراد ررؤیت باری تعالیٰ ہے) ۔ ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے کم درجہ کا جنتی وہ ہوگا جس کے مکانات بیویاں، نوکر، چاکر اور تخت اس کثرت سے ہونگے کہ ہزار برس کی راہ سے وہ انہیں دیکھے گا اور سب سے زیادہ نعمت یافتہ اللہ کے نزدیک وہ شخص ہوگا جو اللہ پاک کے دیدار سے صبح و شام مشرف ہوا کرے گا۔ پھر حضور ﷺ نے یہ آیۃ پڑھی : وُجُوہٌ یَّوْمَءِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ ( یعنی بہت سے چہرے اس روز ترو تازہ اور اپنے رب کی طرف دیکھنے والے ہونگے) اس حدیث کو احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ ابن جریر نے سدی کبیر سے بسند معتبر روایت کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت : مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ نَارًا اور آیت : او کَصَیِّبٍ من السماء میں منافقوں کی دو مثلیں بیان فرمائیں تو منافقین نے سن کر یہ ہذیان سرائی کی کہ اللہ تعالیٰ کی شان والا تو نہایت ارفع و اعلیٰ ہے پھر ایسی ایسی حقیر مثالیں کیوں بیان فرمائیں تو اس وقت اللہ پاک نے ان کے ان گستاخانہ کلمات کے جواب میں ذیل کی آیت نازل فرمائی۔
Top