Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ
: کہہ دیں
اِنْ کَانَتْ
: اگر ہے
لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ
: تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر
عِنْدَ اللہِ
: اللہ کے پاس
خَالِصَةً
: خاص طور پر
مِنْ دُوْنِ
: سوائے
النَّاسِ
: لوگ
فَتَمَنَّوُا
: تو تم آرزو کرو
الْمَوْتَ
: موت
اِنْ كُنْتُمْ
: اگر تم ہو
صَادِقِیْنَ
: سچے
کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر اور لوگوں (یعنی مسلمانوں) کے لیے نہیں اور خدا کے نزدیک تمہارے ہی لیے مخصوص ہے تو اگر سچے ہو تو موت کی آرزو تو کرو
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ ( کہہ دیجئے اے محمد ﷺ اگر تمہارے واسطے) لَکُمْ کَانت کی خبر ہے اور الدَّارُ الْاٰخِرَةُ ( عاقبت کا گھر) کا نت کا اسم ہے عِنْدَ اللّٰهِ ( اللہ کے ہاں) یہ کانت کا ظرف ہے۔ خَالِصَةً ( خاص ہے) دَارُ سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ ( دوسروں کے لیے نہیں) اَلنَّاسِمیں اَ لْ یا تو استغْراق کا ہے یا جنس کا اور یا مراد اس سے مسلمان ہو اور ال عہد کا ہو۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ ( تو مرنے کے کی آرزو کرو) یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو موت مانگو اس لیے کہ جس شخص کو یہ یقیناً معلوم ہوجائیگا کہ میں جنتی ہوں اور اللہ کے پیاروں میں سے ہوں تو وہ ضرور اس طرح کی پریشانی والے گھر سے خلاصی اور نجات کی تمنا کرے یگا اور اللہ کے ملنے کا مشتاق ہوگا۔ ابن مبارک نے باب زھد میں اور بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مؤمن کا تحفہ موت ہے اور دیلمی نے بھی حضرت جابر ؓ سے اس مضمون کو نقل کیا ہے اور حسین بن علی ؓ سے مرفوعاً منقول ہے کہ مؤمن کا پھول موت ہے اور حبان بن الاسود فرماتے ہیں کہ موت ایک پل ہے جو دوست کو دوست سے ملا دیتا ہے یہ آیت و احادیث اس پر دال ہیں کہ آخرت کی منزلوں میں سے قبر پہلی منزل ہے اور اس مضمون کو ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عثمان سے مرفوعاً نقل بھی کیا ہے اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے بلا کیف وصل موت کے بعد قیامت سے پہلے دنیا سے زیادہ حاصل ہوگا کیونکہ اگر یہ امر نہ ہوتا تو موت کی تمنا میں کوئی فائدہ نہ ہوگا اور نہ موت دوست سے ملنے کا پل ہوتا۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو اس فراق کے عذاب شدید سے خلاصی کے لیے موت مانگو اس تقدیر پر یہ آیت آیت مباہلہ کی نظیر ہوگی۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ یہودی موت کی تمنا کرتے تو اسی دم ہر شخص کا ان میں سے اپنے آب دہن سے گلا گھٹ جاتا اور روئے زمین پر ایک بھی یہودی باقی نہ رہتا سب کے سب ہلاک ہوجاتے اس حدیث کو بیہقی نے دلائل میں لکھا ہے اور بخاری اور ترمذی نے بھی مرفوعاً کچھ الفاظ بدل کر اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے اس کو موقوفاً نقل کیا ہے۔ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ( اگر تم سچے) اس کی جزاء محذوف ہے کلام گذشتہ اس پر دلالت کر رہے ہے۔ فصل اس مقام پر یہ مسئلہ قابل نظر ہے کہ آیا موت کی تمنا کرنا جائز ہے یا نہیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی مصیبت مالی یا جسمانی یا اولاد و اہل و عیال کے مرنے کی وجہ سے موت کی تمنا کرتا ہے تو جائز نہیں۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مصیبت کے سبب کوئی تم میں سے موت کی ہرگز تمنا نہ کرے اگر اس تمنا کرنے کو جی ہی چاہتا ہے اور بغیر تمنا کے رہ ہی نہیں سکتا تو اس قدر کہہ دے کہ اے اللہ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرا مرنا بہتر ہو تو موت دے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور انہیں سے ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی تم میں سے مرتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے اور عمر خیر ہی کو بڑھاتی ہے ( یعنی عمر بری چیز نہیں کچھ نہ کچھ اس میں مؤمن خیر ہی کرے گا) اور ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ کوئی تم میں سے موت کی ہرگز تمنا نہ کرے کیونکہ یہ شخص یا تو نیک کار ہوگا تو شاید نیکی زیادہ کرے اور یا بدکار ہے تو ممکن ہے کہ بدی سے باز آجائے اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اور نیز ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی تم میں موت کی تمنا نہ کرے اور نہ موت کے آنے سے پہلے اس کی دعا کرے کیونکہ موت آنے کے بعد آدمی کا عمل بالکل منقطع ہوجاتا ہے اور مؤمن کی عمر خیر اور نیکی ہی بڑھاتی ہے اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے اور موت کی تمنا ممنوع ہونے میں اور بہت سی حدیثیں احمد اور بزار اور بیہقی نے جابر ؓ سے روایت کی ہیں اور مروزی نے قاسم مولی معاویہ ؓ سے اور ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے اور نیز اسی موضوع پر احمد اور ابو یعلی اور حاکم اور طبرانی نے ام الفضل سے روایت کی ہے اور یہ سب رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ ایک امر ضروری یہاں قابل تنبیہ یہ ہے کہ زبان سے موت کی تمنا کرنے اور سوال کرنے سے نہی وارد ہوئی ہے ویسے تمنا اور رغبت اگر ہو تو اس سے نہی نہیں کیونکہ دل کا میلان تو ایک مجبوری امر ہے اس کے دفع پر آدمی کو قدرت نہیں ہاں اگر کوئی دینی فتنہ کے خیال سے موت کا سوال کرے تو کچھ حرج نہیں چناچہ امام مالک اور بزار ثوبان ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ جب آپ لوگوں میں فتنہ ڈالنا چاہئے تو مجھے اس فتنہ سے محفوظ رکھ کر اپنے پاس بلا لیجئے اور امام مالک نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنی دعا میں فرمایا کہ اے اللہ میری قوت ضعیف ہوگئی اور میری عمر زیادہ ہوگئی اور میری رعیت جا بجا پھیل گئی اب اے اللہ مجھے صحیح سالم بلا کسی کے حکم کے ضائع اور کوتاہی کئے ہوئے اپنے پاس بلالے۔ چناچہ اس دعا کو ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ حضرت عمر ؓ کی وفات ہوگئی۔ اور طبرانی نے عمرو بن عنبسہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی تم میں سے موت کی تمنا نہ کرے ہاں اگر اپنے عمل پر اعتماد نہ ہو ( کہ شاید برا عمل ہوجائے) تو موت کی تمنا جائز ہے اور جب اسلام میں چھ خصلتیں دیکھوتو موت کی تمنا کرو اور تمہاری جان (بالفرض) تمہارے قبضہ میں بھی ہو تو اس کو چھوڑ دو ( یہ تمنا اور دعائے موت میں مبالغہ ہے) وہ چھ خصائل یہ ہیں : (1) خونریزی (2) لڑکوں کی سلطنت (3) شرط کی کثرت (4) جاہل بیوقوفوں کا امیر ہونا (5) فیصلہ حکم کی بیع ( یعنی مقدمات کا فیصلہ کرنے کو بیچنا (6) قرآن پاک کو راگ بنانا اور ابن عبد البر نے تمہید میں روایت کیا ہے کہ عمرو بن عنبسہ ؓ سے موت کی تمنا کی بابت بعض لوگوں نے پوچھا کہ آپ موت کی کیوں تمنا کرتے ہیں اس سے تو منع کیا گیا ہے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے چھ چیزیں ظاہر ہونے سے پہلے مر رہو۔ ( یعنی موت کا سوال کرو) (1) جاہل بیوقوفوں کی سلطنت، (2) شرط کی کثرت، (3) حکم کی بیع، (4) خون کے معاملہ کی پرواہ نہ کرنا، (5) قرابت کو قطع کرنا۔ (6) قرآن کو مزامیر بنانا۔ حاکم نے ابن عمر ؓ سے اور ابن سعد نے ابوہریرہ ؓ سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور خوف فتنہ کی وجہ سے بعض سلف صالحین نے اکثر تمنا کی ہے چناچہ اس قسم کے مضامین ابن سعد نے خالد بن معدان سے اور ابن عساکر اور ابو نعیم نے خالد مذکور سے اور مکحول اور ابن ابی الدنیانے ابو الدرداء ؓ سے اور ابن ابی شیبہ اور ابن ابی الدنیا نے ابی جحیفہ سے اور ابن ابی الدنیا اور خطیب اور ابن عساکر نے ابو بکرہ سے اور ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے اور طبرانی اور ابن عساکر نے عرباض بن ساریہ ؓ سے روایت کئے ہیں اور اگر موت کی تمنا اللہ کے ملنے کے شوق میں کرے تو یہ بہت ہی اچھا ہے۔ ابن عساکر نے ذوالنون مصری (رح) سے روایت کی ہے آپ فرماتے تھے کہ شوق سب مقامات سے برتر مقام ہے اور سب درجوں سے بڑھ کر درجہ ہے جب بندہ کو یہ مقام نصیب ہوتا ہے تو اپنے پروردگار کے شوق میں موت کی آرزو کرتا ہے اور اس کے دیر میں آنے سے اکتاتا ہے۔ میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں کہ اس آیت میں مقصود خطاب سے یہی تمنا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے شوق میں ہو اب اس تقدیر پر فَتَمَنُّوُ الْمَوْتَ کی تفسیر یہ ہوگی کہ اللہ کے شوق میں موت کی تمنا کرو۔ ابن سعد اور بخاری و مسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ میں سنا کرتی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پیشتر اختیار دیا جاتا ہے کہ خواہ دنیا میں رہو یا یہاں چلے آؤ جب رسول اللہ ﷺ کو مرض کی شدت ہوئی تو میں نے سنا کہ آپ فرما رہے تھے : مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِییِّیْنَ وَالصِّدِّیقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِیْن وَ حَسُنَ اُوْلٰءِکَ رَفِیْقًا ( ان کے ساتھ جن پر خدا تعالیٰ نے احسان اور انعام فرمایا ہے یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بندے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں) میں سمجھ گئی کہ اب حق تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملا ہے اور آپ ﷺ نے آخرت کو اختیار فرمایا ہے اور نسائی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ میری گود میں لیٹے 1 تھے کہ آپ پر بےہوشی طاری ہوئی میں آپ کے بدن مبارک پر ہاتھ پھیرتی تھی اور آپ کے لیے ان کلمات سے دعاء شفار کرتی تھی : اَذھِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ( اے لوگوں کے پروردگار شدت کو دور فرمائیے) اس کے بعد آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے ہاتھ کو میرے ہاتھ سے الگ کرلیا اور فرمایا نہیں میں تو اللہ سے رفیق اعلیٰ کا سوال کرتا ہوں۔ طبرانی نے روایت کی ہے کہ ملک الموت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ان کی روح قبض کرنے آئے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ملک الموت ! بھلا کہیں ایسا دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کی روح قبض کرے۔ ملک الموت نے یہ سن کر حق تعالیٰ سے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہہ دو کہ تم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کے ملنے کو ناگوار جانے ابراہیم (علیہ السلام) نے سن کر فرمایا میری روح ابھی قبض کرلو ! اور یوسف ( علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ مجھ کو اسلام کی حالت میں وفات دے اور نیک بندوں سے ملا دے اور علی ؓ فرماتے تھے کہ مجھے کچھ پرواہ نہیں خواہ موت مجھ پر گرائی جائے یا میں موت پر گرایا جاؤ اس کو ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے اور عمار صفین میں فرماتے تھے کہ میں آج اپنے دوستوں سے یعنی محمد ﷺ اور آپ کے گروہ سے ملوں گا۔ اس قول کو طبرانی نے کبیر میں اور ابو نعیم نے دلائل میں نقل کیا ہے اس پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ امام احمد نے ابو امامہ ؓ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول للہ ﷺ کی خدمت اقدس میں بیٹھے تھے آپ نے وعظ فرمایا اور ہمارے دلوں کو نرم کیا۔ سعد بن وقاص ؓ یہ وعظ سن کر خوب روئے اور کہہ اٹھے اے کاش میں تو مرجا تا۔ حضور نے فرمایا کہ سعد ! میرے پاس ہو کر موت کی تمنا کرتے ہو اور یہی مضمون تین بار فرمایا پھر فرمایا : سعد ! اگر تم جنت کے لیے پیدا کئے گئے ہو اور تمہاری عمر طویل اور عمل اچھے ہوں تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موت کی تمنا کرنا ہر حال میں ناجائز ہے خواہ کوئی مالی یا جسمی ضرر ہو یا نہ ہو چناچہ حضرت سعد ؓ نے اس قصہ میں موت کی تمنا کسی مالی یا بدنی ضرر وغیرہ سے نہیں کی بلکہ عذاب کے خوف سے کی تھی۔ میں کہتا ہوں بیشک یہ امر صحیح ہے کہ عذاب کے خوف سے تمنا کی لیکن موت سے اللہ کا عذاب دفع نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے تو استغفار کرنا اور اعمال صالحہ میں سبقت کرنا اور گناہوں سے بچنا ضروری ہے اور سی بنا پر جناب رسول اللہ ﷺ نے موت کی تمنا کرنے کو منع فرمایا ہے۔ تحقیق مقام یہ ہے کہ گناہ میں مبتلا ہوجانے یا طاعت میں کوتاہی کے خوف سے موت کی تمنا کرنا جائز ہے۔ اس میں شبہ نہیں اور محبوب حقیقی کی لقاء کے شوق میں خود تمنا کرنا بعض سلف سے مرض الموت میں وارد ہوا ہے چناچہ پہلے ہم نے جناب رسول ﷺ اور ابراہیم (علیہ السلام) اور عمار وغیرہم سے نقل کیا ہے کہ جب موت کا وقت قریب ہو اور اعمال صالحہ کی زیادتی کی ان کو امید نہ رہی تو اللہ تعالیٰ کی لقاء کے شوق میں موت کو حیات پر ترجیح دی۔ عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کو مکروہ سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ملنے کو مکروہ جانتا ہے اس پر حضرت عائشہ ؓ یا اور کسی زوجہ مطہرہ نے عرص کیا یا رسول اللہ ہم تو سب موت کو مکروہ اور برا سمجھتے ہیں۔ فرمایا یہ مطلب نہیں مطلب یہ ہے کہ مؤمن جب مرنے کے قریب ہوتا ہے تو اللہ کی رضا مندی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعزاز کی خوشخبری (1) [ اولیائے کرام کو خوشنودی باری تعالیٰ کا علم قریب موت کے وقت یا تو کشف سے معلوم ہوتا ہے، یا ہاتف کے کلام سے یاس حالت میں کثرت سے ان پر برکات نازل ہونے کو ان کا ذوق محسوس کرتا ہے، یا ملک الموت اور رحمت کے فرشتوں کو جب دیکھتے ہیں تو رضائے حق کا ان کو علم ہوجاتا ہے، منہ (رح) تعالی، 12] اس کو دی جاتی ہے پھر اس وقت اس کو کوئی شے آخرت سے زیادہ پیاری نہیں ہوتی پس وہ اللہ کے ملنے کو دوست رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کے ملنے کو چاہتا ہے اور کافر کی موت جب قریب ہوتی ہے تو اللہ کے عذاب اور عقاب کی خوشخبری اس کو دی جاتی ہے اس وقت کوئی شے اسے آئندہ حالت سے زیادہ بری اور مبغوض اور مکروہ نہیں ہوتی پس وہ اللہ کے ملنے کو مکروہ جانتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ملنے کو مکروہ جانتا ہے اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور تندرستی کی حالت میں کسی سلف سے موت کی تمنا کرنا منقول نہیں لیکن ہاں خوف فتنہ کی وجہ یا عمل میں تقصیر کے خوف سے البتہ منقول ہے۔ جیسے حضرت عمر ؓ سے ہم نے اوپر نقل کیا ہے اور حضرت علی ؓ کا مقولہ بھی اسی پر محمول ہے اور غلبہ حال میں بھی موت کی تمنا کرنا اولیاء کرام (رح) سے وارد ہے، انبیاء اور صحابہ اور اصحاب صحو (ہوشیاری والے یعنی ان پر حال غالب نہیں حال پر وہ خود غالب ہیں) سے یہ تمنا نہیں ہوسکتی وہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے لیے تڑپتے ہیں مگر اعمال صالحہ کی زیادتی کو غنیمت سمجھتے ہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے فَاِنِّیْ فِی الْوِصَالِ عُبَیْدُ نَفْسِیْ وَ فِی الْھِجْرَانِ مَوْلٰی لِلْمَوَالِیْ ( یعنی میں وصال میں تو اپنے نفس کا غلام ہوں ( یعنی حسنات اور اعمال صالحہ میں جو کہ خط نفس کے لیے مشغول رہتا ہوں اور ہجر میں غلاموں کا بھی غلام ہوں) یہود چونکہ شدت جہل اور عناد کی وجہ سے مدعی تھے کہ ہم اللہ کے دوست ہیں ہمیں عمل کی حاجت نہیں اس لیے ان کو کہا گیا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرنا تمہارے لیے ضروری ہے اور چونکہ ان کا دعویٰ جھوٹا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کو ذیل کی آیت میں رد فرمایا۔
Top