Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 107
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام جہان کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے
وما ارسلنا الا رحمۃ للعلمین۔ (اے محمد ﷺ ہم نے تم کو نہیں بھیجا مگر رحمت کی وجہ سے جہان والوں پر یا رحمت بنا کر جہان والوں کے لئے یعنی انس و جن کے لئے۔ پہلے ترجمہ پرر حمۃً مفعول لہ ہوگا یعنی تم کو رسول بنا کر ہم نے اس وجہ سے بھیجا کہ ہم انس و جن پر رحم کرنا چاہتے تھے پس تم کو ہم نے ہادی بنا کر بھیجا تاکہ لوگ تمہارے بتائے ہوئے راستے پر چلیں دوسرے ترجمہ پر رحمۃً سے حال ہوگا یعنی ہم نے تم کو نہیں بھیجا مگر اس حالت میں کہ تم سب کے لئے سبب رحمت ہو۔ حاکم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور ابن سعد و حکیم نے ابو صالح کی روایت سے مرسل حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ میں (اللہ کی طرف سے) فرستادۂ رحمت ہوں۔ بخاری نے تاریخ میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ان الفاظ کے ساتھ حدیث نقل کی ہے کہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے عذاب بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ اس جملہ کا عطف اِنَّ فِی ہٰذَا۔ لِبَلٰغًا پر ہے کیوں کہ قرآن جب جنت کا زاد راہ ہے تو جس رسول پر قرآن کا نزول ہوا اس کا مبعوث ہونا رحمت ہوگیا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ میری نبوت اور پیام نبوت لوگوں کو سعادت مند بنا دینے کا سبب ہے اور معاش و معاد کی درستی کا کفیل ہے اب جو شخص اس کو قبول نہیں کرتا اور رحمت کے زیر سایہ آنے سے انکار کرتا ہے وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے میری نبوت کے رحمت ہونے میں کوئی کمی نہیں حضرت ابن عباس نے فرمایا رسول اللہ ﷺ : کافروں کے لئے دنیا میں رحمت تھے کہ آپ کی وجہ سے دنیا میں ان پر عذاب نہیں آیا ‘ صورت مسخ ہونے ‘ زمین میں دھنسائے جانے اور بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے عذاب سے مامون ہوگئے۔ (خلاصہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ برقول ابن عباس کافروں کے لئے بھی دنیا میں رحمت تھے اور بر تفسیر اوّل کافروں کا مبتلاء عذاب ہونا خودساختہ اور خود آوردہ ہے انہوں نے رحمت کے زیر سایہ آنے سے خود انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کے رحمت ہونے میں کوئی کمی نہیں تھی۔
Top