Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 108
قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوْحٰٓى : وحی کی گئی اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : کہ بس اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد (یکتا) فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم مُّسْلِمُوْنَ : حکم بردار (جمع)
کہہ دو کہ مجھ پر (خدا کی طرف سے) یہ وحی آتی ہے کہ تم سب کا معبود خدائے واحد ہے۔ تو تم کو چاہیئے کہ فرمانبردار بن جاؤ
قل انما یوحی الی انما الہکم الہ واحد (اے محمد ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ میرے پاس یہی وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک معبود ہے۔ آیت میں حصر اضافی ہے (قرآن کے اندر تو احکام کی تعلیم بھی ہے ‘ اقوام پارینہ اور گزشتہ پیغمبروں کے قصے بھی ہیں وعدہ وعید بھی ہے جنت و دوزخ حساب و کتاب اور عقیدۂ قیامت کے لازم ہونے کا ذکر بھی ہے اللہ کی صفات کمالیہ کا اظہار بھی ہے اور دوسرے مباحث علمی و عملی بھی اور مبدؤ ومعاد سے تعلق رکھنے والے سارے مسائل کا بیان بھی ہے پھر یہ کہنا کہ میرے پاس صرف ایک کو معبود ماننے کی وحی آتی ہے بظاہر غلط ہے لیکن اگر حصر کو اضافی کہا جائے تو کلام صحیح ہوجائے گا کیونکہ (مترجم) وحی کی اصلی غرض اظہار توحید ہی ہے (نبوت ‘ کتاب ‘ شریعت ‘ انبیاء کا تذکرہ ‘ قیامت پر عقیدہ ‘ جنت و دوزخ اور حساب و کتاب کی تشریح سب اسی کی شاخیں اور اسی پر مبنی ہیں) اس لئے توحید کا اعلان و اقرار ہی گویا جوہر وحی ہے اور صرف یہ ہی پیام بذریعۂ وحی بھیجا گیا ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ اللہ کی عبادت کے معاملے میں جو وحی آتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ معبود فقط ایک ہے (اس صورت میں حصر حقیقی ہوگا مگر مقید بامر عبادت۔ مترجم) ۔ ایک شبہجب توحید حاصل وحی ہے تو توحید کا ثبوت وحی پر موقوف ہوا اور وحی کی بنا عقیدۂ توحید پر ہے اگر توحید کو نہ مانا جائے تو پھر نہ نبوت کی ضرورت باقی رہتی ہے نہ وحی کی۔ یہ کھلا ہوا دور ہے۔ ازالہتوحید کا ثبوت نقلی بھی ہے جو سننے پر موقوف ہے کیونکہ رسالت کا مدار مرسل پر ہے۔ فہل انتم مسلمون۔ پس کیا تم اطاعت کرنے والے ہو۔ یعنی توحید کو مانو اور خالص عبادت اللہ ہی کی کرو اور وحی کا جیسا تقاضا ہے اس کو پورا کرو اور اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔
Top