Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 71
وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ
وَنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے بچا لیا وَلُوْطًا : اور لوط اِلَى : طرف الْاَرْضِ : سرزمین الَّتِيْ بٰرَكْنَا : وہ جس میں ہمنے برکت رکھی فِيْهَا : اس میں لِلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور ابراہیم اور لوط کو اس سرزمین کی طرف بچا نکالا جس میں ہم نے اہل عالم کے لئے برکت رکھی تھی
ونجینہ ولوطا الی الارض التی برکنا فیہا للعلمین۔ اور ہم ابراہیم ( علیہ السلام) کو اور لوط ( علیہ السلام) کو بچا کر اس زمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا جہان والوں کے لئے خیر و برکت رکھی تھی۔ برکت سے مراد ہے سرسبزی ‘ باغات ‘ درختوں اور پھلوں کی کثرت۔ منجملہ برکات کے یہ بھی ہے کہ بکثرت انبیاء کی بعثت اس سرزمین پر ہوئی۔ حضرت ابی بن کعب نے ارض مبارکہ کہنے کی یہ وجہ بیان کی کہ وہاں شیریں پانی کی کثرت ہے اور صخرۂ بیت المقدس کے نیچے سے ایک چشمہ جاری ہے۔ بغوی نے بروایت قتادہ بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت کعب ؓ سے فرمایا تم مدینہ میں منتقل کیوں نہیں ہوجاتے وہ تو رسول اللہ ﷺ کا مقام ہجرت ہے اور روضۂ پاک بھی وہیں ہے۔ کعب نے کہا امیر المؤمنین ! میں نے اللہ کی کتاب (توریت) میں پڑھا ہے کہ ارض شام تمام زمین میں اللہ کا خزانہ ہے اور وہیں اللہ کے (خاص) بندوں کا خزانہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ آئندہ ہجرت ہوگی (لوگ وطن چھوڑ چھوڑ کر بھاگیں گے) پس بزرگ مرتبہ والے لوگ ابراہیم کے مقام ہجرت کی طرف چلے جائیں گے۔ دوسری روایت میں آیا ہے ابراہیم کے مقام ہجرت سے جو لوگ چمٹے رہیں گے وہ زمین کے تمام باشندوں میں برگزیدہ ہوں گے اور (باقی) زمین پر برے لوگ رہ جائیں گے ان کی زمینیں ان کو باہر نکال پھینکیں گی اللہ ان سے نفرت کرے گا بندروں اور سوروں کے ساتھ ایک آگ ان کو ہنکائے گی جہاں وہ رات کو قیام کریں گے آگ بھی رات کو ان کے ساتھ رہے گی اور جہاں وہ دوپہر کو ٹھہریں گے آگ بھی دوپہر کو ان کے ساتھ ٹھہرے گی۔ رواہ ابو داؤد۔ حضرت زید بن ثابت راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شام کے لئے خوشی ہو ہم نے عرض کیا کس وجہ سے ‘ فرمایا رحمت کے فرشتے اپنے پر پھیلائے اس پر سایہ فگن ہوں گے۔ رواہ احمد والترمذی۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک آگ حضرموت (یمن) کی طرف سے نکلے گی یا یہ فرمایا کہ حضرموت سے ایک آگ لوگوں کو ہنکا کر لائے گی ہم نے عرض کیا پھر حضور ہم کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا تمہارے اوپر شام (میں رہنا یا آجانا) لازم ہے۔ رواہ الترمذی۔ حضرت ابو جوالہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب ایسا ہوگا کہ تمہاری تین مجتمع فوجیں ہوجائیں گی ایک فوج شام میں ‘ ایک فوج یمن میں اور ایک فوج عراق میں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر میں نے وہ زمانہ پا لیا تو مجھے حکم دیجئے (میں اس وقت کیا کروں) فرمایا تیرے اوپر شام (میں رہنا یا آجانا) لازم ہے اللہ کی زمین میں شام کی سرزمین برگزیدہ ہے۔ برگزیدہ بندے ہی اس کی طرف آئیں گے اگر تم ایسا نہ کرسکو تو پھر یمن میں (رہنا یا اہل یمن کا ساتھ دینا) تم پر لازم ہے اللہ نے میرے لئے شام اور اہل شام کی ذمہ داری لی ہے۔ رواہ احمد و ابو داؤد۔ شریح بن عبید کی روایت ہے کہ حضرت علی ؓ کے سامنے اہل شام کا ذکر آیا اور لوگوں نے کہا امیر المؤمنین ان پر لعنت کیجئے۔ فرمایا نہیں۔ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ابدال شام میں ہوں گے اور وہ چالیس آدمی ہوں گے جب ان میں سے کوئی مرجائے گا تو اس کے بدل میں اللہ کسی اور شخص کو مقرر فرما دے گا ان کی برکت سے بارشیں ہوں گی اور انہیں کی وجہ سے دشمنوں پر فتح عطا کی جائے گی اور انہیں کے سبب سے اہل شام کی طرف سے عذاب کا رخ پھیر دیا جائے گا۔ رواہ احمد۔ حضرت عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ میں نے اپنے سر کے نیچے سے نور کا ایک عمود نکلتا دیکھا یہ ستون جگمگاتا رہا یہاں تک (کہ اوپر اٹھنے کے بعد) شام میں پہنچ کر ٹھہر گیا۔ رواہ البیہقی فی الدلائل۔
Top