Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 77
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩  ۞
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : وہ لوگ جو ایمان لائے ارْكَعُوْا : تم رکوع کرو وَاسْجُدُوْا : اور سجدہ کرو وَاعْبُدُوْا : اور عبادت کرو رَبَّكُمْ : اپنا رب وَافْعَلُوا : اور کرو الْخَيْرَ : اچھے کام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح (دوجہان میں کامیابی) پاؤ
مومنو! رکوع کرتے اور سجدے کرتے اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کرو تاکہ فلاح پاؤ
یایہا الذین امنوا ارکعوا واسجدوا وعبدوا ربکم وافعلوا الخیر لعلکم تفلحون۔ اے اہل ایمان تم رکوع اور سجدے کیا کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور نیک کام کیا کرو۔ یہ امید رکھتے ہوئے کہ تم فلاح پاؤ گے۔ رکوع اور سجود سے مراد ہیں نماز یہ دونوں نماز کے ضروری ارکان ہیں جن کے بغیر نماز کا وجود ہی نہیں ہوتا قراءت و قیام وغیرہ میں بھی ارکان ہیں لیکن اتنے اہم نہیں ہیں ضرورت کے وقت ساقط ہوجاتے ہیں گونگے سے قراءت ساقط ہے جو کھڑا نہ ہوسکتا ہو اس سے قیام ساقط ہے رکوع و سجود کا سقوط کسی وقت نہیں ہوتا اسی لئے امام ابوحنیفہ (رح) : کا قول ہے کہ جو شخص سر کے اشارہ سے رکوع و سجود بھی نہ کرسکتا ہو وہ نماز مؤخر کر دے (آئندہ جب قدرت ہو تو ادا کرلے) اشارۂ ابرو یا صرف نیت قلب سے نماز نہیں ہوسکتی۔ عبادت کرو ‘ یعنی اس طور سے عبادت کرو جو اللہ کی عبادت کا مقرر طریقہ ہے۔ اور نیکی کرو ‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اس سے مراد ہے قرابت داروں سے اچھا سلوک کرنا ان کو جوڑے رکھنا اور اعلیٰ اخلاق اختیار کرنا۔ بظاہر لفظ خیر عام ہے اس کے اندر ہر نیکی داخل ہے تمام اچھے کاموں کو یہ لفظ شامل ہے مراد یہ ہے کہ جو بھلائی کا کام ہے وہ کرو۔ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ فلاح پانے کی امید رکھتے ہوئے یہ تمام نیک کام کرو ‘ یعنی یقین مت کرو کہ تمہارے یہ نیک کام قطعی طور پر تم کو بامراد کردیں گے امید رکھو کہ کامیاب ہوگے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اسرائیلی انبیاء میں سے ایک نبی کے پاس وحی کے ذریعہ سے یہ حکم آیا کہ تمہاری امت میں سے جو لوگ میرے اطاعت گزار ہیں ان سے کہہ دو کہ اپنے اعمال پر بھروسہ نہ کر بیٹھنا کیونکہ قیامت کے دن جس شخص کو میں حساب فہمی کے مقام پر کھڑا کروں گا اور اس کو عذاب دینا چاہوں گا تو ضرور عذاب دوں گا (یعنی حساب فہمی میں سختی کروں گا اور درگزر سے کام نہ لوں گا تو لامحالہ وہ شخص عذاب میں ماخوذ ہوجائے گا) اور اپنی امت کے گناہگاروں سے کہہ دو کہ وہ خود اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالیں (ہلاک شدہ نہ سمجھیں اور ناامید نہ ہوں) کیونکہ میں بڑے بڑے گناہگاروں کو بخش دوں گا اور مجھے پروا بھی نہ ہوگی۔ رواہ ابو نعیم عن علی ؓ۔ بزار نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا (ہر) آدمی کے لئے تین رجسٹر نکال کر لائے جائیں گے ایک رجسٹر میں اس کے نیک اعمال درج ہوں گے ایک رجسٹر گناہوں کا ہوگا جس میں گناہوں کا اندراج ہوگا اور ایک رجسٹر اللہ کی نعمتوں کا (جس میں اللہ کی وہ تمام نعمتیں درج ہوں گی جو اس بندے کو عطا فرمائی گئی ہوں گی) پھر اللہ اپنی سب سے چھوٹی نعمت سے فرمائے گا اپنے مقابلہ میں اس بندے کے نیک (اعمال میں سے کسی) عمل کا انتخاب کرلے۔ نعمت اپنے مقابلہ پر سب نیک اعمال کو لے آئے گی (اور پھر بھی سارے اعمال صالحہ کے مقابلہ میں نعمت کا پلڑہ بھاری رہے گا) نعمت عرض کرے گی اے اللہ تیری عزت کی قسم میں نے اپنے مقابل ایک ایک کر کے ساری نیکیاں لے لیں اور ساری نیکیاں ختم ہوگئیں اب گناہ رہ گئے عمل صالح (تو ایک ہی نعمت کے مقابلہ میں) ختم ہوگئے۔ اگر اللہ بندہ پر رحم کرنا چاہے گا تو فرمائے گا میرے بندے میں نے تیرے لئے تیری نیکیاں چند گنا کردیں اور تیرے گناہوں سے میں نے اعراض کیا اور تجھ کو اپنی نعمت بخش دی۔ مسئلہ کیا آیت مذکورہ میں سجدۂ تلاوت واجب ہے علماء کا اس میں اختلاف ہے امام ابو حنفیہ ‘ امام مالک ‘ سفیان ثوری اور کچھ دوسرے علماء کہتے ہیں یہاں سجدہ واجب نہیں اس جگہ سجدہ سے مراد تو نماز کا سجدہ ہے۔ کیونکہ آیت میں سجدہ کے ساتھ رکوع کا بھی حکم دیا ہے اور آیات قرآن کو تلاش کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی آیات میں سجدہ سے مراد سجدۂ نماز ہوتا ہے جیسے وَاْسجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ۔ میں سجدۂ نماز مراد ہے کیونکہ اس کے ساتھ رکوع کا بھی حکم دیا گیا ہے ابن مبارک (رح) ‘ امام شافعی (رح) امام احمد وغیرہ قائل ہیں کہ اس جگہ سجدۂ تلاوت ضرور کرنا چاہئے کیونکہ حضرت عقبہ بن عامر کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ﷺ : کیا سورت حج کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں فرمایا ہاں جو یہ دو سجدے نہ کرے وہ ان (آیتوں) کو نہ پڑھے۔ رواہ احمد و ابو داؤد والترمذی۔ حدیث مذکور کو بالفاظ مذکورہ ترمذی نے نقل کیا ہے۔ و رواہ الدارقطنی والبیہقی والحاکم۔ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اس کے سلسلۂ روایت میں ایک شخص ابن لہیعہ شامل ہے جو ضعیف ہے۔ ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے۔ ابن جوزی نے لکھا ہے کہ ابن وہب نے کہا ابن لہیعہ یوں تو سچا ہے لیکن حافظہ (کی کمزوری) کی وجہ سے اس کو ضعیف کہا گیا ہے۔ حاکم نے لکھا ہے عبداللہ بن لہیعہ یوں تو امام ہے لیکن آخری عمر میں اس کا حافظہ درست نہیں رہا تھا (وسواس پیدا ہوگیا تھا) اور اس حدیث کا راوی تنہا یہی شخص ہے (اس لئے حدیث ضعیف ہوگئی) ۔ ابو داؤد نے المراسیل میں لکھا ہے کہ ابن لہیعہ نے رسول اللہ ﷺ : کا یہ فرمان بیان کیا کہ سورة حج کو دو سجدوں پر مشتمل ہونے کی فضیلت حاصل ہے۔ اس روایت کو مسند کہنا صحیح نہیں۔ حضرت عمرو بن عاص کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن میں مجھے سجدے کی پندرہ آیات پڑھائیں تین سجدے مفصلات میں اور دو سورة حج میں۔ رواہ ابو داؤد و ابن ماجۃ والدارقطنی والحاکم والمنذری والنووی۔ عبدالحق اور ابن القطان نے اس کو ضعیف کہا ہے اس میں عبداللہ بن منین کلالی غیر معروف ہے اور اس سے حارث بن سعید ثقفی مصری نے روایت کی ہے اور یہ بھی مجہول ہے۔ حاکم نے حضرت عقبہ بن عامر والی حدیث کی تاکید کے لئے کہا ہے کہ حضرت عمر ‘ حضرت ابن عمر ‘ حضرت ابن مسعود ‘ حضرت ابن عباس ‘ حضرت ابو درداء ‘ حضرت ابو موسیٰ اور حضرت عمار ؓ کے اقوال جو بروایت صحیحہ موقوفاً آئے ہیں وہ بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ بیہقی نے المعرفۃ میں خالد بن معدان کے طریق سے مرسلاً روایت اس کی تائید میں بیان کی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ یہی اقوال حضرت عمر ؓ ‘ حضرت علی ؓ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عمر ؓ کے ہیں۔ میں کہتا ہوں اس باب میں موقوف کو مرفوع کا درجہ حاصل ہے (کیونکہ کسی آیت میں سجدۂ تلاوت ہونے یا نہ ہونے کا مدار محض روایت پر ہے اگر ان صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے نہ سنا ہوتا تو خود ایسا نہیں فرماتے) سجود تلاوت کے مسائل ہم نے سورت انشقاق میں مفصل بیان کردیئے ہیں۔
Top