Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 78
وَ جَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ١ؕ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ١ؕ مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِیْنَ١ۙ۬ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ هٰذَا لِیَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِیْدًا عَلَیْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ١ۖۚ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ١ؕ هُوَ مَوْلٰىكُمْ١ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ۠   ۧ
وَجَاهِدُوْا : اور کوشش کرو فِي اللّٰهِ : اللہ میں حَقَّ : حق جِهَادِهٖ : اس کی کوشش کرنا هُوَ : وہ۔ اس اجْتَبٰىكُمْ : اس نے تمہیں چنا وَمَا : اور نہ جَعَلَ : ڈالی عَلَيْكُمْ : تم پر فِي الدِّيْنِ : دین میں مِنْ حَرَجٍ : کوئی تنگی مِلَّةَ : دین اَبِيْكُمْ : تمہارے باپ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم هُوَ : وہ۔ اس سَمّٰىكُمُ : تمہارا نام کیا الْمُسْلِمِيْنَ : مسلم (جمع) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَفِيْ ھٰذَا : اور اس میں لِيَكُوْنَ : تاکہ ہو الرَّسُوْلُ : رسول شَهِيْدًا : تمہارا گواہ۔ نگران عَلَيْكُمْ : تم پر وَتَكُوْنُوْا : اور تم ہو شُهَدَآءَ : گواہ۔ نگران عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر فَاَقِيْمُوا : پس قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتُوا : اور ادا کرو الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاعْتَصِمُوْا : اور مضبوطی سے تھام لو بِاللّٰهِ : اللہ کو هُوَ : وہ مَوْلٰىكُمْ : تمہارا مولی (کارساز) فَنِعْمَ : سو اچھا ہے الْمَوْلٰى : مولی وَنِعْمَ : اور اچھا ہے النَّصِيْرُ : مددگار
اور خدا (کی راہ) میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی (کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔ (اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں۔ اور تم لوگوں کے مقابلے میں شاہد اور نماز پڑھو اور زکوٰة دو اور خدا کے دین کی (رسی کو) پکڑے رہو۔ وہی تمہارا دوست ہے۔ اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے
وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ اور اللہ کے (راستہ) میں کوشش کرو۔ جیسی کوشش کرنے کا حق 1 ؂ ہے۔ جہد بالضم وسعت ‘ طاقت ‘ جَہد بالفتح مشقت ‘ بعض اہل لغت کے نزدیک جہد کا معنی ہے انتہائی کوشش۔ بعض کے نزدیک جہد اور جہد دونوں کے معنی ہیں وسعت اور طاقت لیکن مشقت اور انتہائی کوشش کے لئے صرف لفظ جہد کا استعمال ہوتا ہے جہاد اور مجاہدہ (باب مفاعلۃ) جہد سے ہی بنا ہے۔ یعنی طرفین سے انتہائی کوشش و مشقت۔ دشمن سے جنگ کرنے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ طرفین سے غالب آنے کی انتہائی کوشش ہوتی ہے اور ہر فریق اپنی انتہائی وسعت و طاقت صرف کرتا ہے اور قولی و عملی جہاد کرتا ہے۔ فِی اللّٰہ یعنی اللہ کی راہ میں دین کو سربلند کرنے اور مضبوط کرنے کے لئے بعض نے فی اللہ کا ترجمہ کیا ہے لوجہ اللہ خالص اللہ کے لئے۔ حَقَّ جِہَادِہٖکی ترکیب مقلوب ہے یعنی جہاد کرو ایسا جہاد جو حق ہو ‘ خالص اللہ کے لئے ہو۔ حق کی اضافت جہاد کی طرف معنی میں زور پیدا کرنے کے لئے کردی گئی جیسے بولتے ہیں ہُوَ حَقُّ عَالِمخلاصۂ مطلب یہ ہے کہ خالص اللہ کے لئے جہاد کرو۔ اسی لئے حضرت ابن عباس ؓ نے حق جہادہ کی تشریح میں فرمایا اپنی پوری طاقت اللہ کی راہ میں لگا دینا اور اللہ کے دین میں کسی برا کہنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنا ہی حق جہاد ہے۔ مقاتل اور ضحاک نے کہا اللہ کے لئے کام کرو جیسا کہ کام کرنے کا حق ہے اور اس کی عبادت کرو جیسا عبادت کا حق ہے۔ اکثر مفسرین نے کہا حق جہاد یہ ہے کہ نیت خالص اللہ کے لئے ہو۔ سدی نے کہا حق جہاد یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا نفس اور نفسائی ہوا و ہوس سے جہاد کرنا ہی جہاد اکبر اور حق جہاد ہے۔ بغوی نے بیان کیا روایت میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک سے واپس آئے تو فرمایا ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ آئے۔ بیہقی نے الزہد میں حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں کچھ غازی لوگ حاضر ہوئے ‘ حضور ﷺ نے ان کو خوش آمدید فرمایا اور فرمایا تم لوگ جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ آئے۔ عرض کیا گیا جہاد اکبر کیا ہے ؟ فرمایا بندہ کا اپنی نفسانی خواہشات سے جہاد کرنا بیہقی نے کہا اس کی سند میں ضعف ہے۔ میں کہتا ہوں اس آیت میں جہاد سے صرف کفار سے جنگ کرنا ہی مراد نہیں ہے۔ رفتار آیت اس تخصیص کے خلاف ہے۔ ترتیب آیت میں خاص کے بعد عام کا ذکر کیا گیا ہے پہلے واسْجُدُوْا وَارْکَعُوْافرما کر نماز کا حکم دیا اس کے بعد عام عبادت کا حکم دیا جس میں نماز بھی داخل ہے اس کے بعد ہر عمل خیر کو اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی ‘ اس کے اندر اللہ کے حقوق ‘ بندوں کے حقوق ‘ تمام نمازیں ‘ روزے ‘ کافروں سے جنگ ‘ اخلاق کریمہ اختیار کرنا اور تمام نیکیاں کرنا داخل ہے۔ سنن اور مستحبات کو بھی یہ حکم شامل ہے اس کے بعد جہاد کا حکم دیا تو اس ترتیب بیان کا لحاظ کرتے ہوئے کوئی وجہ نہیں کہ جہاد کو کافروں سے جنگ کے لئے مخصوص سمجھ لیا جائے بلکہ اس سے مراد ہوگا تمام گفتار رفتار اور اطوار میں اخلاص اور یہ اخلاص اسی وقت حاصل ہوگا جب نفس اور خواہشات نفس کی مخالفت کی جائے کیونکہ جب تک دل کی صفائی نہ ہو اور نفس کو فنا نہ کردیا جائے اس وقت تک اخلاص کا حصول ممکن نہیں اور دل کی صفائی اور فناء نفس اس وقت ممکن ہے جب نفس امارہ اور اس کی خواہشات سے جہاد کیا جائے لیکن اسی کے ساتھ مشکوۃ نبوت سے نورچینی بھی لازم ہے اسی کو اصطلاح میں سلوک اور جذب کہا جاتا ہے قدماء مفسرین کے اقوال میں اسی کو اخلاص کہا گیا ہے۔ صوفی جب نفس کو فنا کردیتا ہے اور دل کی صفائی اس کو حاصل ہوجاتی ہے تو اس کا شمار مخلصین میں ہوجاتا ہے اس وقت وہ کسی کے برا کہنے کی پروا نہیں کرتا اور بغیر دکھاوٹ اور شہرت طلبی کے خالص نیت کے ساتھ لوجہ اللہ اپنے رب کی عبادت کرتا ہے ہر دم اس کی فرماں برداری کرتا ہے ‘ کبھی نافرمانی نہیں کرتا درحقیقت یہی جہاد اکبر ہے۔ کافروں سے لڑنا تو جہاد کی ایک ظاہری شکل ہے بلکہ تمام عبادتیں جہاد کی صورتیں ہیں اگر خالص لوجہ اللہ نہ ہوں تو بیکار ہیں رسول اللہ ﷺ : کا ارشاد ہے تمام اعمال نیت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہر شخص کے لئے وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی پس جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے گھر بار اور وطن چھوڑا تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول کی طرف ہوگی اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لئے ہوگی جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہوگی۔ متفق علیہ براویت حضرت عمر بن خطاب ؓ ۔ یہ بھی اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے میں سب شریکوں سے زیادہ شرک سے بےنیاز ہوں جس نے کوئی (نیک) عمل کیا اور میرے ساتھ دوسرے کو بھی اس میں شریک کرلیا تو میں اس (کے) عمل سے بیزار ہوں۔ اس کا یہ عمل اسی کے لئے ہوگا جس کے لئے اس نے کیا ہوگا۔ (مسلم) ۔ فائدہ اللہ کے رسول نے فرمایا تھا کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آئے ‘ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ نفس کے ساتھ جہاد کرنا سب سے بڑا جہاد ہے اور یہ شیخ کامل کی صحبت سے مرید کو حاصل ہوتا ہے۔ کافروں سے جنگ کرنے کے بعد جب صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے اور برکت صحبت سے فیضیاب ہوئے تھے اور انوار رسالت کی کچھ کرنوں کا پر تو ان کے دلوں پر پڑا تھا تو ان کے دل پاک صاف ہوگئے اور نفس کی نفسانیت فنا ہوگئی۔ صحابہ نے بھی اس کے جواب میں کہا کہ ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ آئے صحابہ کا یہ قول بھی بلاشک صحیح تھا ‘ کافروں سے جنگ کرنے کے وقت اگرچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے لیکن دشمن سے لڑنے کی طرف ان کی کامل توجہ تھی کفار کی مدافعت ہی ان کے پیش نظر تھی دوسری طرف ان کی توجہ ہی نہ تھی یا تھی تو کمزور تھی لیکن جب مدینہ میں پہنچ کر امن کے ساتھ صحبت رسول اللہ ﷺ میں کامل توجہ کے ساتھ حاضر ہوئے تو انوار رسالت سے نورچینی کا زیادہ موقع ملا اور علوم ظاہری و باطنی کو حاصل کرنے کی کامل فرصت ملی اور یہی سب سے بڑا جہاد تھا۔ ہو اجتبکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج اس نے تم کو (اور امتوں سے) ممتاز فرمایا اور اس نے تم پر دین (کے کام) میں کسی قسم کی تنگی نہیں کی۔ حضرت مؤلف نے فرمایا ‘ اللہ نے تم کو اپنے نبی اور حبیب کی مصاحبت کے لئے تمام لوگوں میں سے منتخب فرما لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ اللہ نے (سارے انسانوں میں سے) مجھے منتخب فرما لیا اور میرے لئے میرے ساتھی منتخب فرما دیئے اور ساتھیوں میں سے میرے لئے سسرالی رشتہ دار اور مددگار منتخب فرما دیئے۔ حضرت واثلہ بن اسقع کا بیان ہے ‘ میں نے خود سنا رسول اللہ فرما رہے تھے اللہ نے اسماعیل ( علیہ السلام) کی اولاد میں سے کنانہ کو برگزیدہ بنا دیا اور بنی کنانہ میں سے قریش کو بزرگی عطا فرمائی اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب کرلیا اور بنی ہاشم میں مجھے منتخب فرمایا۔ رواہ مسلم۔ ترمذی کی روایت میں ہے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اسماعیل کو چھانٹ لیا اور اولاد اسماعیل میں سے بنی کنانہ کو۔ اور دین میں تم پر تنگی نہیں کی یعنی ایسی تنگی اور سختی نہیں کی جس کی تعمیل و تکمیل تمہارے لئے سخت ہوجاتی۔ بعض اہل تفسیر نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ مؤمن جب کسی گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اللہ اس کے لئے گناہ کی سزا سے نکلنے کا راستہ ضرور بنا دیتا ہے ‘ توبہ کے ذریعہ سے ہو یا دنیوی سزا اور اداء حقوق کی صورت میں ہو یا کفارہ دے کر ہو ‘ بہرحال اللہ نے دین اسلام میں ایسی تنگی نہیں رکھی کہ کسی طرح اس گناہ سے پاک ہونے کی گنجائش ہی نہ ہو۔ گزشتہ امتوں کے لئے بعض گناہوں سے توبہ کرنے اور توبہ قبول ہونے کا اللہ نے کوئی طریقہ مقرر نہیں کیا۔ بعض اہل علم نے کہا تنگی نہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ اللہ نے اداء فرائض کے اوقات میں کوئی اشتباہ نہیں رکھا ‘ فرائض کو ادا کرنے کے لئے اوقات مقرر فرما دیئے مثلاً ہلال رمضان ‘ ہلال فطر وقت حج وغیرہ۔ مقاتل نے کہا تنگی نہیں کی یعنی ضرورت کے وقت سہولت کا باب کھول دیا مثلاً سفر میں نماز کا قصر ‘ پانی نہ ملنے یا نقصان رساں ہونے کی صورت میں تیمم۔ سخت ضرورت کے وقت مردار کو کھانا ‘ مجبوری کے وقت بیٹھ کر بلکہ لیٹ کر نماز ادا کرنا ‘ کلبی نے بھی یہی تشریح کی ہے۔ یہی مطلب ہے رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کا کہ جب میں تم کو کسی بات کا حکم دوں تو جتنا ہو سکے اس کی تعمیل کرو۔ حضرت ابن عباس ؓ : کا قول مروی ہے تنگی نہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ بنی اسرائیل پر (سخت احکام کے) جو بار تھے (اور سخت بندشیں تھیں) اللہ نے اس امت سے ان کو ساقط کردیا۔ میں کہتا ہوں دین میں تنگی نہ رکھنے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے شرعی احکام کی پابندی کو مسلمانوں کے لئے تکلیف دہ نہیں رہنے دیا ‘ احکام شرعی کی پابندی تمہارے لئے طبعی مرغوبات سے بھی زیادہ لذیذ ہوگئی واجتباہ (امتیاز) کی یہی خصوصیت لازمہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا نماز میں میری خنکی چشم بنا دی گئی ہے۔ رواہ احمد والنسائی والحاکم (وصححہ) والبیہقی عن انس ؓ ۔ ملۃ ابیکم ابراہیم تم اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی (اس) ملت پر (ہمیشہ قائم رہو) یہ سورت مکی ہے اس لئے بظاہر آیت میں خطاب قریشی مؤمنوں کو ہے اور دوسرے لوگ ذیلی طور پر اس میں داخل ہوجائیں گے (کیونکہ قریش کے علاوہ بہت کثرت سے ایسے لوگ تھے جن کے نسبی مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم نہ تھے) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ اس معاملہ میں دوسرے لوگ قریش کے پیرو ہیں۔ مسلمان مسلمان قریشیوں کے اور کافر کافر قریشیوں کے۔ متفق علیہ حدیث ابی ہریرہ ؓ ۔ مسلم نے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خیر و شر میں لوگ قریش کے پیرو ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک تمام عرب کو خطاب ہے کیونکہ سارے عرب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے تھے (لیکن حضرت سلمان فارسی ‘ حضرت بلال حبشی ‘ حضرت صہیب رومی اور موالی کی کثیر جماعت تو عرب نہ تھی اور قیامت تک آنے والے لوگ بھی نسل ابراہیمی سے نہیں ہوں گے اس لئے یہ تفسیر کمزور ہے مترجم) بعض نے کہا کہ تمام مسلمان مخاطب ہیں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے جداعلیٰ تھے اور امت کے لئے رسول اللہ ﷺ باپ کی طرح ہیں (نسبی نہیں بلکہ) آپ تمام مسلمانوں کی ابدی زندگی کا سبب تھے اور مسلمانوں کی حقیقی زندگی کا سبب تھے اور مسلمانوں کی حقیقی زندگی حضور کی ہی عطا کردہ تھی اسی لئے اللہ نے فرمایا ( وَاَزْوَجُہٗ اُمَّہَاتُہُمْ ) اور رسول اللہ ﷺ : کی بیبیاں مسلمانوں کی مائیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں تمہارے لئے باپ کی طرح ہوں تم کو تعلیم دیتا ہوں ‘ جب تم میں سے کوئی بیت الخلا میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کر کے نہ بیٹھے نہ پشت کر کے اور دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔ رواہ احمد و ابو داؤد والنسائی وابن ماجۃ و ابن حبان عن ابی ہریرۃ ؓ ۔ اہل مکہ کو دین ابراہیمی مرغوب تھا ‘ مسلمانوں کو بھی اور کافروں کو بھی۔ مشرکوں کا بھی دعویٰ تھا کہ وہ ملت ابراہیم پر ہیں اس خیال کی تردید میں اللہ نے تنبیہ فرمائی کہ تمہارا یہ گمان غلط ہے دین ابراہیمی پر تو شریعت محمدی پر چلنے والے ہیں ملت محمدی ہی ملت ابراہیمی ہے دوسری آیت میں فرمایا ہے اِنَّ اَوْلٰی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔ ابراہیم ( علیہ السلام) سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو ان کے متبع ہیں اور یہ نبی اور (اس نبی پر) ایمان والے لوگ بھی۔ ہو سمکم المسلمین من قبل وفی ہذا اسی نے (یعنی اللہ نے) اس سے پہلے بھی (یعنی نزول قرآن سے پہلے سابق کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا اور اس (قرآن) میں بھی۔ ابن زید نے کہا ہُوَکی ضمیر ابراہیم کی طرف راجع ہے یعنی اس زمانے سے پہلے اپنے زمانے میں ابراہیم نے تمہارا نام مسلمان رکھا ‘ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی دعا میں کہا تھا رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُسْلِمَۃً لَکَاے ہمارے رب ! ہم کو اپنا مسلم (مطیع) بنا دے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک مسلمان امت (یعنی اہل مکہ کو مسلمان امت) بنا دے۔ اگرچہ حضرت ابراہیم نے اس قرآن میں امت محمدی کو مسلمان کا خطاب نہیں دیا ‘ لیکن آپ نے اپنی دعا میں چونکہ اس امت کو امت مسلمہ کہا تھا (اور اللہ نے آپ کی دعا کو قبول فرما لیا) اور اسی سبب سے اللہ نے اس امت کو قرآن میں مسلمہ کا خطاب دیا تو گویا حضرت ابراہیم نے ہی اس قرآن میں امت محمدی کو مسلمہ کہا ‘ بعض علماء نے کہا اصل کلام اس طرح تھا ابراہیم نے تمہارا نام اس سے پہلے مسلم رکھا اور اس قرآن میں تم کو مسلمان کے نام سے موسوم کرنے کا بیان ہے۔ یہ جملہ درحقیقت ہُوَ اجْتَبٰکُمْکا بیان ہے کیونکہ سچے اسلام کی ہدایت کرنا اور مسلمان نام رکھنا اسی وجہ سے ہے کہ اللہ نے تم کو منتخب کرلیا ہے۔ لیکون الرسول شہیدا علیکم وتکونوا شہدآء علی الناس (اللہ نے تم کو مسلمان ہونے کی توفیق دی اور تم کو مسلمان بنایا اور تمہارا نام مسلمان رکھا) تاکہ قیامت کے دن رسول شہادت دیں (کہ میں نے تم کو اسلام پہنچا دیا تھا) اور تم دوسرے لوگوں پر گواہ ہوجاؤ ( کہ ان کے پیغمبروں نے ان کو اللہ کا پیام پہنچا دیا تھا) ۔ ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میں اور میری امت والے اونچے ٹیلوں پر ہوں گے اور اوپر سے مخلوق کو دیکھ رہے ہوں گے ہر شخص کی دلی خواہش ہوگی کہ وہ ہم میں سے ہوجائے (یعنی ہمارے پاس ٹیلہ پر آجائے) اور کوئی نبی ایسا نہ ہوگا کہ اس کی قوم نے اس کی تکذیب نہ کی ہو اور ہم شہادت دیں گے کہ اس نے اپنی قوم کو اپنے رب کا پیام پہنچا دیا تھا۔ ابن مبارک نے الزہد میں لکھا ہے ہم کو ابن سعد نے اپنے چچا کے بیٹے پر محول کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ابو حیلہ نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے اسرافیل کو بلایا جائے گا اور اللہ اس سے فرمائے گا کیا تو نے میرا پیام پہنچا دیا تھا۔ اسرافیل جواب دیں گے جی ہاں ‘ میں نے جبرئیل : ( علیہ السلام) کو تیرا پیام پہنچا دیا تھا۔ جبرئیل ( علیہ السلام) کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا اسرافیل ( علیہ السلام) نے تجھے میرا پیام پہنچا دیا تھا ‘ جبرئیل ( علیہ السلام) جواب دیں گے جی ہاں اس قول پر اسرافیل سبکدوش ہوجائیں گے۔ اللہ جبرئیل ( علیہ السلام) سے فرمائے گا پھر تو نے میرے حکم کی کیا تعمیل کی جبرئیل ( علیہ السلام) عرض کریں گے میں نے وہ حکم پیغمبروں کو پہنچا دیا تھا۔ پھر پیغمبروں کو طلب کیا جائے گا اور دریافت کیا جائے کیا جبرئیل ( علیہ السلام) نے تم کو میرا حکم پہنچا دیا تھا ‘ پیغمبر عرض کریں گے جی ہاں۔ دریافت کیا جائے گا پھر تم نے میرے حکم کا کیا کیا پیغمبر جواب دیں گے ہم نے (اپنی اپنی) امتوں کو پہنچا دیا اس پر امتوں کو طلب کیا جائے گا اور پوچھا جائے گا کیا تم کو پیغمبروں نے میرا حکم پہنچا دیا تھا کچھ لوگ اپنے جواب میں انبیاء کی تکذیب کریں گے اور کچھ تصدیق کریں گے انبیاء عرض کریں گے ہمارے پاس تبلیغ حکم پر شہادت دینے والے گواہ موجود ہیں اللہ فرمائے گا شاہد کون ہے انبیاء عرض کریں گے محمد کی امت (شاہد ہے کہ ہم نے اپنی اپنی امتوں کو تیرا حکم پہنچا دیا تھا) چناچہ امت محمدی کو طلب کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا تم شہادت دیتے ہو کہ انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو میرا حکم پہنچا دیا تھا ‘ محمد کی امت والے جواب دیں گے جی ہاں (ہم اس کی شہادت دیتے ہیں) اس وقت انبیاء کی امتیں کہیں گی اے ہمارے رب (یہ لوگ تو ہمارے بعد پیدا ہوئے تھے) انہوں نے تو ہمارا زمانہ نہیں پایا ‘ پھر یہ کیسے شہادت دے رہے ہیں۔ اللہ فرمائے گا تم لوگوں نے تو ان امتوں کا زمانہ نہیں پایا پھر کس طرح ان کی شہادت دے رہے ہو ؟ امت محمدی کہے گی اے ہمارے رب ! تو نے ہمارے پاس ایک رسول بھیجا تھا اور ہم پر ایک کتاب اتاری تھی اور اس کتاب میں بیان کیا تھا کہ انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو تیرا پیام پہنچا دیا۔ یہی مضمون ہے آیت وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیُکْوَن الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا۔ کا۔ اس آیت کی تشریح میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بخاری وغیرہ نے جو حدیث بیان کی ہے اس کی تفصیل سورة بقرہ کی اسی آیت کی تفسیر کے موقع پر ہم نے کردی ہے۔ فاقیموا الصلوۃ پس نماز کی پابندی کرو۔ واتوا الزکوۃ اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یعنی اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کی (جسمانی و مالی) طاعت کرو۔ واعتصموا باللہ اور (اپنے تمام امور میں) اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ کے سوا کسی اور سے کسی کام میں مدد طلب نہ کرو۔ حسن نے کہا واعْتَصِمُوْا باللّٰہِکا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو ‘ حضرت ابن عباس ؓ : کا قول ایک روایت میں آیا ہے اپنے رب سے مانگو وہ تمام مکروہات سے تم کو محفوظ رکھے گا۔ بعض نے کہا اپنے رب سے دعا کرو تاکہ وہ دین پر تم کو ثابت قدم رکھے۔ بعض کا قول ہے کہ اعتصام باللہ کا معنی ہے قرآن اور سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ جب تک ان کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ : کا طریقہ۔ رواہ مالک فی المؤطا مرسلاً حضرت عصیف بن حارث یمنی راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں پیدا کی کسی قوم نے (اپنے دین کے اندر بلا ثبوت) کوئی نئی بات مگر (اس کے مقابلہ میں) ویسی ہی ایک سنت اٹھا دی گئی (مطلب یہ ہے کہ دین کے اندر جب کوئی نئی بات داخل کی جائے گی تو اللہ کے رسول کی سنت اتنی ہی مٹتی چلی جائے گی) پس سنت کو پکڑے رہنا (دین میں) بدعت کو ایجاد کرنے سے بہتر ہے۔ رواہ احمد۔ ہو مولکم وہی تمہارا مددگار ہے ‘ وہی تمہارا محافظ ہے۔ وہ تمہارے کاموں کا کارساز ‘ ذمہ دار ہے۔ فنعم المولی ونعم النصیر۔ وہی تمہارا سب سے اچھا کارساز اور اچھا مددگار ہے۔ فَنِعْمَمیںسببیت کے لئے ہے ‘ یعنی جب ثابت ہوگیا کہ اللہ تمہارا کارساز و مددگار ہے تو بس وہی سب سے اعلیٰ کارساز و مددگار ہے۔ اس کی مثل کوئی نہیں۔ بلکہ حقیقت میں اس کے سوا کوئی دوسرا کارساز و مددگار ہی نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ الحمدللہ 8 ذی الحجہ 1203 ھ ؁ کو سورة حج کی تفسیر ختم ہوئی۔ 16 رمضان المبارک 1389 ھ ؁ کو اللہ کی مدد سے تفسیر مظہری سورة حج کا ترجمہ ختم ہوا۔ فللہ الحمد اولا واخرا وباطنًا وظاہرًا
Top