Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 7
وَّ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیْهَا١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَّاَنَّ : اور یہ کہ السَّاعَةَ : گھڑی (قیامت) اٰتِيَةٌ : آنیوالی لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهَا : اس میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ يَبْعَثُ : اٹھائے گا مَنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں۔ اور یہ کہ خدا سب لوگوں کو جو قبروں میں ہیں جلا اٹھائے گا
وان الساعۃ اتیۃ لاریب فیہا اور یقیناً (دنیا کے ختم ہونے کی) ساعت ضرور آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ گونا گوں تغیرات کا ظہور اختتام دنیا کا پیش خیمہ ہے۔ وان اللہ یبعث من فی القبور۔ اور یہ بات قطعی ہے کہ اللہ قبروں والوں (یعنی مردوں) کو زندہ کر کے اٹھائے گا کیونکہ اس نے اس کا وعدہ فرما لیا ہے اور وعدۂ خداوندی کے خلاف ہونا ممکن نہیں۔ اوّل الذکر تینوں جملے علت فاعلہ کو ظاہر کر رہے ہیں یعنی انسان کی تخلیقی نیرنگیاں اور متضاد احوال میں نو بنو تبدیلیاں اور مردہ زمین کو زندہ کرنا علت فاعلہ کی حیثیت میں ہے اور آخر کے دونوں جملے نتیجۂ دلیل یا علت غائیہ کی طرح ہیں انسان وغیرہ کی تخلیق بےکار نہیں ہے آدمی کی تخلیق کا مقصد اللہ کی معرفت و عبادت ہے معرفت پر عبادت مرتب ہوتی ہے اور عبادت پر جزا و سزا کی بنا رہے اگر قانون جزا و سزا نہ ہو تو مؤمن و منکر اور فرمانبردار و مجرم مساوی ہوجائیں گے اور عدل کا تصور ختم ہوجائے گا۔ اللہ نے فرمایا ہے کیا ہم اہل اطاعت کو مجرموں کی طرح کردیں گے تمہارا یہ کیسا فیصلہ ہے۔
Top