Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 59
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل نیک کرو۔ جو عمل تم کرتے ہو میں ان سے واقف ہوں
یایہا الرسل کلوا من الطیبت واعملوا صالحا اے پیغمبر و حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ طَیِّبٰتِ سے مراد ہیں حلال چیزیں اور امر وجوب کے لئے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ (اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ حلال چیزیں کھاؤ یعنی کل حلال چیزیں کھانے کا حکم وجوبی نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ۔ مترجم) یا لذیذ چیزیں مراد ہیں اس وقت امر اباحت اور سہولت پیدا کرنے کے لئے ہوگا اس سے رہبانیت اور ترک لذات کی تردید ہوجائے گی۔ بعض نے کہا اس سے حلال صاف قوام والا مراد ہے حلال تو حرام کی ضد ہوتا ہے اور صاف سے یہ مراد ہے کہ اس کے کھانے سے اللہ کی یاد نہ بھولے اس کا کھانا اللہ کی یاد سے غافل نہ بنا دے اور خواہشات نفسانی میں نہ ڈال دے اور قوام سے یہ مراد ہے کہ نفس کی خواہش کو روک دے عقل کی حفاظت رکھے یعنی سیری کی مقدار سے زائد نہ ہو۔ نیک کام سے مراد ہے اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرنا جو محض اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جائے اس میں کسی قسم کے شرک کی آمیزش بھی نہ ہو ‘ فاسد نہ ہو ‘ یعنی ایسا قول و فعل نہ ہو جو اللہ کو پسند نہیں ہے۔ خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ہر زمانہ میں اس زمانہ کے پیغمبر کو حکم دے دیا تھا کہ حرام چیز نہ کھانا حلال ‘ کھانا اور نیک کام کرنا۔ یہ کلام حقیقت میں گزشتہ واقعات کا بیان ہے۔ حسن ‘ مجاہد ‘ قتادہ ‘ سدی ‘ کلبی اور مفسرین کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یٰاَیُّہَا الرُّسُلُ سے خطاب صرف رسول اللہ ﷺ کو ہے۔ عرب کا طریقہ ہے کہ ایک کو جمع کے صیغہ سے خطاب کرلیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں ایک کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے جمع کے صیغہ سے خطاب کیا جاتا ہے اس قسم کے خطاب میں مخاطب کی بزرگی کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ ایک جماعت کے قائم مقام ہے پس جمع کا صیغہ بول کر رسول اللہ ﷺ : کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے اور ایماء ہے اس طرف کہ آپ کو سب لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صیغۂ جمع سے خطاب رسول اللہ ﷺ اور علماء امت کو ہو رسول اللہ اور علمائے امت کے درمیان ایک برزخی درجہ رکھتا ہے اور علماء امت ‘ رسول اور دوسرے لوگوں کے درمیان برزخی درجہ رکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے علماء انبیاء کے قائم مقام ہیں۔ یا علوم انبیاء کے وارث ہیں۔ بعض اہل علم نے کہا کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کو خطاب ہے اور یہ خطاب اس وقت کیا گیا تھا جب ربوہ میں وہ پناہ گزیں ہوگئے تھے اس خطاب میں اس حکم کو بیان فرمایا ہے جو انبیائے سابقین کو دیا گیا تھا تاکہ یہ دونوں بزرگ بھی سابق انبیاء کی پیروی کریں۔ بیان قصہ کا تقاضا یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کو ہی مخاطب قرار دیا جائے۔ انی بما تعملون علیم۔ جو کچھ تم کرتے ہو میں بلاشبہ اس کو جانتا ہوں (تمہارے اعمال کے مطابق جزا دوں گا)
Top