Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 77
حَتّٰۤى اِذَا فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِیْدٍ اِذَا هُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَ۠   ۧ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا : جب فَتَحْنَا : ہم نے کھول دئیے عَلَيْهِمْ : ان پر بَابًا : دروازے ذَا عَذَابٍ : عذاب والا شَدِيْدٍ : سخت اِذَا هُمْ : تو اس وقت وہ فِيْهِ : اس میں مُبْلِسُوْنَ : مایوس ہوئے
یہاں تک کہ جب ہم نے پر عذاب شدید کا دروازہ کھول دیا تو اس وقت وہاں ناامید ہوگئے
حتی اذا فتحنا علیہم بابا ذا عذاب شدید اذا ہم فیہ مبلسون۔ یہاں تک کہ جب سخت عذاب کا دروازہ ان پر کھول دیا تو یکدں حیران و نراس ہوگئے۔ یہاں تک کہ سب سے زیادہ سرکش و متمرد شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دعائے رحمت کا طلبگار ہوا اس آیت میں عذاب شدید سے قحط کا عذاب مراد ہے۔ بشرطیکہ آیت حَتّٰی اِذَا اَخَذْنَا مُتْرَفِیْہِمْ بالْعَذَابِمیں العذاب سے مراد ہو جنگ بدر میں مارا جانا جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے ‘ بھوک کا عذاب ‘ قید اور قتل کے عذاب سے سخت ہوتا ہے اس لئے اس کو عذاب شدید فرمایا اور اگر العذاب سے قحط اور بھوک کا عذاب مراد ہو جیسا کہ ضحاک کا خیال ہے تو پھر عذاب شدید سے مراد ہوگا عذاب موت یا عذاب قبر یا عذاب قیامت اور عذاب دوزخ اور اس وقت فَتَحْنَاماضی کا صیغہ مستقبل کے معنی میں ہوگا چونکہ آئندہ عذاب کا وقوع یقینی تھا اس لئے ماضی کا صیغہ استعمال کیا جیسے آیت اِذَ الشَّمْسُ کُوِّرَتْ میں ماضی بمعنی مستقبل ہے ‘ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ہر طرح کی مصیبت ڈال کر ان کا امتحان لیا۔ قید و قتل کا بھی اور قحط و بھوک کا بھی لیکن انہوں نے عاجزی نہیں کی اور اللہ کے سامنے زاری نہیں کی آخر جب عذاب آخرت میں گرفتار ہوں گے تو اس وقت حیران اور نراس ہو کر رہ جائیں گے اسی حیرانی اور ناامیدی کا اظہار آیت یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ میں کیا ہے۔
Top