Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 76
وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ : البتہ ہم نے انہیں پکڑا بِالْعَذَابِ : عذاب فَمَا اسْتَكَانُوْا : پھر انہوں نے عاجزی نہ کی لِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے سامنے وَمَا يَتَضَرَّعُوْنَ : اور وہ نہ گڑگڑائے
اور ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی اور وہ عاجزی کرتے ہی نہیں
ولقد اخذنہم بالعذاب فما استکانوا لربہم وما یتضرعون۔ اور ہم نے ان کو گرفتار عذاب بھی کیا تب بھی انہوں نے اپنے رب کے سامنے نہ عاجزی اختیار کی نہ گڑگڑائے۔ (نہ زاری کی) ۔ الْعَذَاب یعنی بدر کی لڑائی میں مارا جانا یا قحط پڑنا۔ فَمَا سْتَکَانُوْا لِرَبِّہِمْیعنی انہوں نے توبہ نہیں کی۔ اپنے رب کی طرف رجوع نہیں ہوئے بلکہ اپنی سرکشی پر قائم رہے۔ اسْتکانُوْا یا باب استفعال سے ہے اس کا مادہ کون ہے محتاج بھی ایک کون سے دوسرے کون کی طرف اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے۔ (ہر دم ایک نئے تغیر کا طلبگار ہوتا ہے) یا استکانوا باب افتعال سے ہے اس کا مادہ مسکن ہے کہ کے بعد الف اشباعی ہے۔ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَیعنی وہ زاری کرنے ‘ عاجزی کرنے اور خشوع کرنے سے مانوس ہی نہیں ہیں۔ (خشوع و خضوع کا مادہ ہی ان کے اندر نہیں ہے) ۔ بیہقی نے دلائل میں بیان کیا ہے کہ ابن اثال حنفی جب گرفتار ہو کر رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور ﷺ نے اس سے وعدہ لے کر چھوڑ دیا پھر وہ مکہ کو چلا گیا اور مسلمان ہوگیا (قریش نے اس کو گرفتار کرنا چاہا وہ بھاگ کر) مکہ اور یمامہ کے درمیان آکر آ بیٹھا اور یمامہ سے جو غلے کی رسد مکہ کو آیا کرتی تھی اس کو روک دیا ‘ قریش بھوکے مرنے لگے ‘ یہاں تک کہ جانوروں کا اون کھانے لگے ‘ مجبور ہو کر ابو سفیان رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کیا آپ کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ آپ کو دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا بیشک یہی بات ہے۔ ابو سفیان نے کہا تو (یہ کیسی رحمت ہے کہ) آپ نے آبا و اجداد کو تو تلوار سے قتل کردیا اور ان کی اولاد کو قحط سالی سے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں (گویا) شہادت ہے اس بات کی کہ اگر ہم نے دوسرا عذاب بھی ان سے دور کردیا تو یہ اللہ کے سامنے زاری نہیں کریں گے جیسے پہلے عذاب میں گرفتار ہونے کے بعد اللہ کی طرف انہوں نے رجوع نہیں کیا اور زاری نہیں کی۔ ایک شبہ تفسیر مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے خوشحال کافروں کو جس عذاب میں گرفتار کیا تھا وہ عذاب دور نہیں کیا ‘ حالانکہ بغوی نے صراحت کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کیلئے بددعا کی ‘ اور فرمایا اے اللہ ! دور یوسفی کی طرح ان کو بھی قحط سالیوں میں مبتلا کر دے اور قریش قحط زدہ ہوگئے۔ پھر ابو سفیان نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا ‘ میں آپ سے اللہ اور قرابت داری کے حوالے سے پوچھتا ہوں کیا آپ کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ آپ کو لوگوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا بیشک یہی بات ہے۔ ابو سفیان نے کہا تو آپ نے باپوں کو تلوار سے قتل کرا دیا اور ان کی اولاد کو قحط سے۔ اب اللہ سے دعا کیجئے کہ خدا اس قحط کو دفع کر دے۔ چناچہ حضور ﷺ نے دعا کی اور اللہ نے قحط کو دور کردیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بددعا کی وجہ سے جو قحط قریش پر پڑا تھا وہ حضور ﷺ : کی دعا سے اللہ نے دور کردیا (اور آپ کا بیان کردہ تفسیری مطلب بتارہا ہے کہ قحط سالی دور نہیں کی گئی) ۔ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ زمانہ میں ان پر رحم نہیں کیا گیا اور عذاب دور نہیں کیا گیا کیونکہ اللہ جانتا تھا کہ عذاب دور ہونے کے بعد بھی یہ لوگ کفر پر اڑے رہیں گے لیکن عذاب (کبھی) دفع نہ ہوگا آیت میں اس کی صراحت نہیں ہے چناچہ پہلے ان سے عذاب دور نہیں کیا گیا ‘ پھر رسول اللہ ﷺ : کی دعا سے دور کردیا گیا لیکن انہوں نے پھر بھی توبہ نہیں کی اور اپنی سرکشی پر اڑے رہے اور گمراہی میں ہی سرگرداں گھومتے رہے۔
Top