Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 137
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِاَمٰنٰتِهِمْ : اپنی امانتیں وَعَهْدِهِمْ : اور اپنے عہد رٰعُوْنَ : رعایت کرنے والے
اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں
والذین ہم لامنتہم وعہدہم راعون۔ اور جو اپنے (پاس رکھی ہوئی) امانتوں کا اور (کئے ہوئے) معاہدات کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔ امانتوں سے مراد ہیں وہ چیزیں جو بطور امانت مؤمنوں کے پاس رکھی جائیں ان کو ان چیزوں کا امین بنا دیا جائے۔ عَہْدِ (وعدہ) دو طرح کا ہوتا ہے ایک عہد وہ ہے جو اللہ نے بندوں سے لیا اور بندوں نے اللہ سے کیا ہے۔ نماز ‘ روزہ ‘ اور تمام عبادتیں اس کے ذیل میں آتی ہیں۔ دوسرا عہد وہ ہے جو آدمی آپس میں کرتے ہیں۔ امانت ‘ ودیعت ‘ تجارت اور دوسرے معاہدات جن کا تعلق باہم انسانوں سے ہوتا ہے دونوں کی پابندی اور ان کو پورا کرنا ‘ مسلمانوں پر واجب ہے (بشرطیکہ گناہ اور اللہ کی نافرمانی کا معاہدہ نہ ہو۔ مترجم) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ : کا بیان ہے کہ میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے حساب فہمی نماز کی ہوگی۔ نماز ٹھیک نکلی تو بندہ کامیاب اور بامراد ہوگیا اور نماز بگڑی تو ناکام و نامراد ہوجائے گا اگر کسی فرض کی ادائیگی میں کوئی کمی نکلے گی تو رب کریم فرمائے گا میرے بندے کے نوافل دیکھو (اگر کچھ نوافل ہوئے تو) ان سے فرض کی کمی پوری کردی جائے گی ‘ پھر باقی اعمال کا حال بھی اسی طرح ہوگا (دوسری روایت میں آیا ہے پھر زکوٰۃ کی حالت بھی اسی طرح ہوگی۔ پھر تمام اعمال کی حساب فہمی اسی طریقے سے ہوگی۔ رواہ ابو داؤد۔ امام احمد نے یہ حدیث بہ روایت رحل بیان کی ہے۔
Top