Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 10
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِیْمٌ۠ ۧ
وَلَوْلَا
: اور اگر نہ
فَضْلُ اللّٰهِ
: اللہ کا فضل
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَرَحْمَتُهٗ
: اور اس کی رحمت
وَاَنَّ
: اور یہ کہ
اللّٰهَ
: اللہ
تَوَّابٌ
: توبہ قبول کرنیوالا
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتیں۔ مگر وہ صاحب کرم ہے اور یہ کہ خدا توبہ قبول کرنے والا حکیم ہے
ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ اور (اے امت محمد ﷺ ! ) اگر تم پر اللہ کا فضل و رحمت نہ ہوتی۔ وان اللہ تواب حکیم۔ اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (تو اللہ تم کو رسوا کر دیتا اور دنیا میں ہی فوری عذاب دے دیتا) ۔ تَوَّابٌ (لوٹنے والا) یعنی جو شخص پشیمان ہو کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوتا ہے اللہ اپنی رحمت کے ساتھ اس کی طرف التفات فرماتا اور لوٹتا ہے۔ حکیم ہے یعنی جو حدود وغیرہ اللہ نے تم پر فرض کی ہیں وہ ان کی حکمت سے واقف ہے۔ شیخین وغیرہ نے بروایت زہری بوساطت عروہ بن زبیر و سعید بن مسیب و علقمہ بن وقاص و عبیداللہ بن عتبہ بن مسعود ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بیان اس وقت دیا تھا جب تہمت تراشوں کے الزام سے اللہ نے حضرت عائشہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر فرما دی۔ زہری نے کہا مجھ سے متعدد اہل حدیث نے یہ قصہ بیان کیا ‘ بعض نے کم بعض نے زیادہ لیکن ہر ایک کا بیان دوسرے کے بیان کی تائید کرتا ہے۔ عروہ کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ : کا بیان حسب ذیل آیا ہے۔ ام المؤمنین نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو اپنی بیبیوں میں قرعہ اندازی کرتے تھے ‘ جس بی بی کا نام نکل آتا اس کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے ‘ چناچہ ایک جہاد 1 پر آپ تشریف لے جانے لگے تو حسب معمول قرعہ اندازی کی ‘ میرا نام نکل آیا ‘ مجھے آپ نے ساتھ لے لیا ‘ یہ واقعہ پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ہودج میں سوار ہوئی میرا ہودج ہی اٹھا کر (اونٹ پر) رکھا جاتا تھا اور نیچے اتارا جاتا تھا (مجھے باہر نکلنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی) اس طرح ہم مدینے سے چل دیئے۔ جب جہاد سے فارغ ہو کر واپس ہوئے اور مدینے کے قریب پہنچ کر ایک جگہ اترے ‘ رات کو کوچ کرنے کا اعلان ہوا۔ میں (رفع ضرورت کو جانے کے لئے) اٹھی اور چل کر لشکر سے آگے نکل گئی۔ ضرورت سے فارغ ہو کر جب اپنے مقام پر پہنچی اور سینہ کو ٹٹوالا تو عقیق 2 یمنی کا ہار جو میں پہنے تھی وہ ٹوٹ کر کہیں گرگیا ‘ میں ہارو کو ڈھونڈنے کے لئے فوراً لوٹ پڑی ‘ ہار کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی ‘ میرے ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھنے والے لوگ آئے اور یہ خیال کر کے کہ میں ہودج کے اندر ہوں خالی ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا ‘ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں بھاری نہیں ہوتی تھیں ان پر گوشت نہیں چڑھا ہوتا تھا ‘ کھانا تھوڑا کھاتی تھیں ‘ اس لئے لوگوں نے ہودج کی خفت محسوس نہ کی ‘ پھر میں تو کم سن لڑکی ہی تھی انہوں نے ہودج کو اونٹ پر لاد دیا اور اونٹ کو کھڑآ کر کے چل دیئے لشکر کے روانہ ہونے کے بعد مجھے ہار مل گیا۔ پڑاؤ پر واپس آئی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا پڑاؤ بالکل خالی تھا ‘ مجبوراً میں اپنی فرودگاہ پر ہی رک گئی اور خیال کیا کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں گے تو لوٹ کر ضرور آئیں گے۔ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے مجھے نیند آگئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمیٰ ذکوانی نے لشکر سے پیچھے بہت دور قیام کیا تھا (کیونکہ لشکر کی کوئی گری پڑی چیز تلاش کرنے اور نگرانی رکھنے پر ان کو مامور کیا گیا تھا) ۔ وہ رات کے آخری حصہ میں اپنی فرود گاہ سے (حسب الحکم) روانہ ہوئے اور صبح کو میری فرود گاہ پر پہنچ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ کوئی سو رہا ہے دیکھتے ہی مجھے پہچان لیا ‘ کیونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَپڑھا ‘ میں ان کے پڑھنے کی آواز سے بیدار ہوگئی اور اپنا چہرہ چادر سے ڈھانک لیا ‘ خدا کی قسم انہوں نے مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کی اور سوائے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجَعُوْنَ کے اور کوئی لفظ میں نے ان سے نہیں سنا ‘ اپنی اونٹنی انہوں نے میرے پاس لا کر بٹھا دی اور اس کا دھنگنا باندھ دیا ‘ میں اٹھ کر اونٹنی پر سوار ہوگئی وہ مہار پکڑے ہوئے آگے آگے چلتے رہے ہمارا لشکر ٹھیک دوپہر کے وقت ایک جگہ ٹھہر گیا تھا ‘ میں اس طرح لشکر تک پہنچ گئی۔ میرے معاملہ میں جس (تہمت تراش) کو ہلاک ہونا تھا وہ (غلط افواہیں پھیلا کر) مارا گیا۔ اس تہمت تراشی کا سب سے بڑا ذمہ دار عبداللہ بن ابی سلول تھا ‘ میں مدینے پہنچ کر بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ بیمار رہی لوگ الزام تراشوں کی باتوں میں مشغول تھے۔ بیماری کے زمانے میں مجھے پتہ نہیں تھا صرف یہ بات میرے لئے ضرور پریشان کن اور شبہ پیدا کرنے والی تھی کہ رسول اللہ ﷺ : کو وہ التفات میری طرف نہ تھا جو میری بیماری میں پہلے ہوا کرتا تھا ‘ بس اتنی بات ہوتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ (حسب معمول) آتے اور سلام علیک کرتے اور فرماتے تم لوگ کیسے ہو پھر واپس چلے جاتے اس سے مجھے شبہ ہوتا پریشانی ہوتی ‘ لیکن راز کا پتہ نہ تھا۔ جب میں اچھی ہوگئی مگر کمزور تھی تو ایک رات کو ام مسطح کو ساتھ لے کر میں مناصع کی طرف جانے کے لئے نکلی پہلے ہمارے گھروں کے پاس بیت الخلاء بنے ہوئے نہیں ہوتے تھے ‘ رفع ضرورت کے لئے رات کو ہم جنگل کی طرف عربوں کے پہلے رواج کے مطابق جایا کرتے تھے ہم کو گھروں کے قریب ٹٹیاں بنانے سے (بدبو سے) ایذا ہوتی تھی۔ (مسطح کی ماں ابو وہم بن عبدمناف کی بیٹی تھی اور مسطح کی نانی صخر بن عامر کی بیٹی تھی صخر کی بیٹی حضرت ابوبکر ؓ صدیق کی خالہ تھی اور اس کا بیٹا مسطح بن اثاثہ تھا) غرض میں اور ام مسطح دونوں ساتھ ساتھ ضرورت سے فارغ ہو کر گھر کی طرف کو لوٹے ‘ ام مسطح کا پاؤں چادر میں الجھ گیا اور اس نے ٹھوکر کھائی گرتے ہی اس کے منہ سے نکلا مسطح مرے ‘ میں نے کہا تم نے یہ بہت بری بات کہی ‘ کیا تم ایسے شخص کو کوس رہی ہو جو بدر میں شریک تھا۔ ام مسطح نے کہا بیٹی کیا تم نے اس کی بات نہیں سنی ؟ میں نے کہا اس نے کیا کہا ؟ اس پر ام مسطح نے مجھے تہمت تراشوں کی کہی ہوئی بات بتائی ‘ اس بات کو سن کر میری بیماری اور بڑھ گئی ‘ جب گھر لوٹ کر آئی اور رسول اللہ ﷺ (حسب معمول) تشریف لائے اور دریافت کیا آپ ﷺ لوگ کیسے ہیں تو میں نے کہا کیا آپ ﷺ : کی اجازت ہے میں اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی ہوں۔ میرا خیال تھا کہ مجھے یقینی خبر ماں باپ سے مل جائے گی ‘ آپ نے اجازت دے دی میں والدین کے گھر پہنچی اور اپنی والدہ سے پوچھا اماں لوگ یہ کیا باتیں کر رہے ہیں والدہ نے کہا بیٹا تم اس کا رنج نہ کرو جب کوئی عورت کسی شوہر کی نظر میں چمکیلی ہوتی ہے اور شوہر اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوتی ہیں تو سوکنیں اس کے خلاف بڑی بڑی باتیں بناتی ہیں میں نے کہا سبحان اللہ لوگ یہ باتیں کہہ رہے ہیں ‘ میں اس خبر کو سن کر رات بھر روتی رہی صبح تک نہ میرا آنسو تھما نہ نیند آئی ‘ پھر صبح کو بھی روتی رہی۔ ادھر رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو مشورہ کے لئے بلایا کیونکہ وحی آنے میں دیر ہوگئی تھی (مدت سے وحی نہیں آئی تھی) اسامہ رسول اللہ ﷺ : کی بیوی کی پاک دامنی سے واقف تھے انہوں نے پاک دامن ہونے کا ہی مشورہ دیا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ اسامہ کے دل میں رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں کی محبت تھی اسی کے مطابق انہوں نے مشورہ دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ آپ کی بیوی ہیں اور ہم تو ان کو اچھا ہی جانتے ہیں لیکن علی ؓ نے کہا آپ کے لئے اللہ نے کوئی تنگی نہیں رکھی ان کے علاوہ بہت عورتیں ہیں۔ آپ ﷺ خادمہ سے دریافت کریں وہ سچ سچ کہہ دے گی ‘ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا کیا تو نے عائشہ ؓ کی کوئی ایسی حرکت دیکھی ہے جس سے تیرے دل میں کوئی شک گزرا ہوا بریرہ نے کہا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا ہے میں نے عائشہ ؓ کی کوئی بات ایسی نہیں دیکھی کہ میں نکتہ چینی کرسکوں ہاں بس اتنی بات ضرور ہے کہ وہ چونکہ کم سن لڑکی ہے سو جاتی ہے آٹا گوندھا ہوا رکھا رہتا ہے بکری آتی ہے اس کو کھا جاتی ہے۔ اس تحقیقات کے بعد رسول اللہ ﷺ : منبر پر تشریف لے گئے اور عبداللہ بن ابی کی طرف سے معذرت پیش کرنے کے خواستگار ہوئے اور فرمایا اے گروہ اہل اسلام میرے گھر والوں کے معاملہ میں عبداللہ بن ابی کی ذات سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے کیا کوئی اس کی طرف سے میرے سامنے کوئی عذر پیش کرسکتا ہے خدا کی قسم مجھے اپنی بیوی کے متعلق (کوئی بات نہیں معلوم ہوئی) اچھائی ہی معلوم ہوئی لوگ ایک ایسے آدمی کا نام لے رہے ہیں جس کے اندر مجھے کوئی برائی معلوم نہیں ہے (وہ اچھا ہی ہے) اور وہ میرے گھر کے اندر میرے ساتھ ہی جاتا ہے ‘ (تنہا نہیں جاتا) یہ سن کر سعد بن معاذ اشہلی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (اگر آپ ﷺ : کی طرف سے تہمت تراش کو کچھ دکھ پہنچ جائے تو) میں آپ کو معذور جانتا ہوں اگر وہ اوس کے قبیلہ میں ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر ہمارے خزرجی بھائیوں میں سے ہے تو آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ یہ بات سن کر قبیلۂ کزرج کا ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا۔ حسان کی ماں اس شخص کے چچا کی بیٹی تھی ‘ یعنی سعد بن عبادہ سردار خزرج کھڑے ہوئے پہلے یہ نیک آدمی تھے لیکن قبیلہ کی حمیت ان پر سوار ہوگئی اور سعد بن معاذ سے کہنے لگے خدا کی قسم تم نے جھوٹ کہا تم نہ اس کو قتل کرو گے نہ اس کو قتل کرنے کی تم میں ہمت ہے اور اگر تمہارے قبیلہ والوں میں سے وہ ہوتا تو میرے خیال میں تم اس کو قتل (کرنے کا ارادہ ہی) نہ کرتے اس پر سعد بن معاذ کے چچا زاد بھائی اسید بن حضیر نے سعد بن عبادہ سے کہا تم نے خدا کی قسم جھوٹ کہا ہم اس کو ضرور بالضرور قتل کردیں گے تم یقیناً منافق ہو منافقوں کی طرف سے لڑتے ہو اس کے بعد اوس اور خزرج دونوں قبیلے جوش میں آگئے قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں رسول اللہ ﷺ : منبر پر موجود تھے آپ سب کو ٹھنڈا کر رہے تھے آخر سب خاموش ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا میں اس روز بھی دن بھر روتی رہی اور رات بھر بھی میرا آنسو نہ تھما نہ نیند آئی۔ والدین کو اندیشہ ہوگیا کہ روتے روتے میرا جگر پھٹ جائے گا ‘ دونوں حضرات میرے پاس بیٹھے ہی ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ‘ میں نے اجازت دے دی وہ آکر بیٹھ گئے اور میرے ساتھ رونے لگی۔ کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ : تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے اس سے پہلے جب سے میرے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہوئی تھیں رسول اللہ ﷺ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ کا وقفہ گزر چکا تھا اس عرصہ میں میرے معاملے کے متعلق کوئی وحی بھی نہیں آئی تھی بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ نے اوّل کلمۂ شہادت پڑھا ‘ پھر فرمایا عائشہ ؓ مجھے تیرے متعلق ایسی ایسی خبریں پہنچی ہیں اگر تو ان سے پاک ہے تو اللہ تیری پاکی ظاہر فرما دے گا اور اگر تو اتفاقاً کسی گناہ میں مبتلا ہوگئی ہے تو اللہ سے توبہ و استغفار کر ‘ بندہ جب گناہ کا اقرار کرلیتا ہے اور معافی کا طلبگار ہوتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے ‘ جب رسول اللہ ﷺ اپنی بات پوری کرچکے تو میرے آنسو تھم گئے کہ ایک قطرہ بھی نکلتا مجھے محسوس نہ ہوا پھر میں نے اپنے والد سے کہا رسول اللہ ﷺ : کی بات کا جواب دیجئے ‘ والد نے کہا خدا کی قسم مجھے کوئی جواب معلوم نہیں کیا جواب دوں۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے یہی بات کہی کہ آپ جواب دیجئے ‘ انہوں نے بھی والد کی طرح یہی کہا میں کیا کہوں مجھے کوئی جواب معلوم نہیں ‘ آخر میں نے خود کہا (اس قت میں نو عمر لڑکی تھی زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا) خدا کی قسم میں جان گئی کہ تم لوگوں نے یہ بات سن کر اپنے دلوں میں جما لی ہے اور اس کو سچ ماننے لگے ہو اگر اب میں کہوں کہ میں اس سے پاک ہوں اور خدا جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو تم مجھے سچا نہ جانو گے اور اگر میں تمہارے سامنے اقرار کرلوں اور خدا جانتا ہے کہ میں اس فعل سے پاک ہوں تو تم مجھے سچاسمجھو گے (اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتی) مجھے اپنی اور تمہاری حالت کی سوائے اس کے اور کوئی مثال نہیں ملتی جو یوسف ( علیہ السلام) کے باپ نے کہا تھا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ (پس میں بھی یہی کہتی ہوں) یہ کہنے کے بعد میں نے منہ موڑ لیا اور بستر پر لیٹ گئی۔ میں یہ تو جانتی تھی کہ چونکہ میں پاک ہوں ‘ اللہ ضرور میری پاکی کا اظہار فرما دے گا ‘ لیکن میرا یہ گمان بھی نہ تھا کہ میرے معاملے میں اللہ کوئی ایسی وحی نازل فرمائے گا جو (ہمیشہ قرآن) میں پڑھی جائے گی۔ میرے دل میں میری حالت اس قابل نہ تھی کہ اللہ اس کے سلسلہ میں اپنا کلام نازل فرماتا جو (ہمیشہ) پڑھا جائے گا۔ مجھے تو یہ امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ : کو اللہ کی طرف سے میری پاک دامنی کا کوئی خواب دکھا دیا جائے گا۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے ہٹے بھی نہ تھے اور نہ کوئی گھر والا باہر نکلا تھا کہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ پر وحی نازل فرما دی اور نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر جو تکلیف ہوئی تھی وہ ہونے لگے ‘ سخت سردی کے زمانے میں نزول وحی کے وقت چاندی کے موتیوں جیسے پسینے کے قطرے (آپ کی پیشانی سے) ٹپکنے لگتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد وحی کی وہ حالت دور ہوئی اور ہنستے ہوئے جو لفظ آپ نے سب سے پہلے اپنے منہ سے نکالا وہ یہ تھا ‘ عائشہ ؓ خوش ہوجا ‘ اللہ نے تیری پاک دامنی کا اظہار کردیا ‘ میری ماں نے کہا اٹھ رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ۔ میں نے کہا خدا کی قسم میں نہ اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف جاؤں گی نہ اللہ کے سوا کسی کا شکر کروں گی ‘ اللہ نے میری پاکی ظاہر فرمائی ‘ اللہ نے مندرجۂ ذیل آیات نازل فرمائیں۔
Top