Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 10
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ تَوَّابٌ : توبہ قبول کرنیوالا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوجاتیں۔ مگر وہ صاحب کرم ہے اور یہ کہ خدا توبہ قبول کرنے والا حکیم ہے
ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ اور (اے امت محمد ﷺ ! ) اگر تم پر اللہ کا فضل و رحمت نہ ہوتی۔ وان اللہ تواب حکیم۔ اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (تو اللہ تم کو رسوا کر دیتا اور دنیا میں ہی فوری عذاب دے دیتا) ۔ تَوَّابٌ (لوٹنے والا) یعنی جو شخص پشیمان ہو کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوتا ہے اللہ اپنی رحمت کے ساتھ اس کی طرف التفات فرماتا اور لوٹتا ہے۔ حکیم ہے یعنی جو حدود وغیرہ اللہ نے تم پر فرض کی ہیں وہ ان کی حکمت سے واقف ہے۔ شیخین وغیرہ نے بروایت زہری بوساطت عروہ بن زبیر و سعید بن مسیب و علقمہ بن وقاص و عبیداللہ بن عتبہ بن مسعود ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بیان اس وقت دیا تھا جب تہمت تراشوں کے الزام سے اللہ نے حضرت عائشہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر فرما دی۔ زہری نے کہا مجھ سے متعدد اہل حدیث نے یہ قصہ بیان کیا ‘ بعض نے کم بعض نے زیادہ لیکن ہر ایک کا بیان دوسرے کے بیان کی تائید کرتا ہے۔ عروہ کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ : کا بیان حسب ذیل آیا ہے۔ ام المؤمنین نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو اپنی بیبیوں میں قرعہ اندازی کرتے تھے ‘ جس بی بی کا نام نکل آتا اس کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے ‘ چناچہ ایک جہاد 1 ؂ پر آپ تشریف لے جانے لگے تو حسب معمول قرعہ اندازی کی ‘ میرا نام نکل آیا ‘ مجھے آپ نے ساتھ لے لیا ‘ یہ واقعہ پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ہودج میں سوار ہوئی میرا ہودج ہی اٹھا کر (اونٹ پر) رکھا جاتا تھا اور نیچے اتارا جاتا تھا (مجھے باہر نکلنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی) اس طرح ہم مدینے سے چل دیئے۔ جب جہاد سے فارغ ہو کر واپس ہوئے اور مدینے کے قریب پہنچ کر ایک جگہ اترے ‘ رات کو کوچ کرنے کا اعلان ہوا۔ میں (رفع ضرورت کو جانے کے لئے) اٹھی اور چل کر لشکر سے آگے نکل گئی۔ ضرورت سے فارغ ہو کر جب اپنے مقام پر پہنچی اور سینہ کو ٹٹوالا تو عقیق 2 ؂ یمنی کا ہار جو میں پہنے تھی وہ ٹوٹ کر کہیں گرگیا ‘ میں ہارو کو ڈھونڈنے کے لئے فوراً لوٹ پڑی ‘ ہار کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی ‘ میرے ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھنے والے لوگ آئے اور یہ خیال کر کے کہ میں ہودج کے اندر ہوں خالی ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا ‘ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں بھاری نہیں ہوتی تھیں ان پر گوشت نہیں چڑھا ہوتا تھا ‘ کھانا تھوڑا کھاتی تھیں ‘ اس لئے لوگوں نے ہودج کی خفت محسوس نہ کی ‘ پھر میں تو کم سن لڑکی ہی تھی انہوں نے ہودج کو اونٹ پر لاد دیا اور اونٹ کو کھڑآ کر کے چل دیئے لشکر کے روانہ ہونے کے بعد مجھے ہار مل گیا۔ پڑاؤ پر واپس آئی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا پڑاؤ بالکل خالی تھا ‘ مجبوراً میں اپنی فرودگاہ پر ہی رک گئی اور خیال کیا کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں گے تو لوٹ کر ضرور آئیں گے۔ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے مجھے نیند آگئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمیٰ ذکوانی نے لشکر سے پیچھے بہت دور قیام کیا تھا (کیونکہ لشکر کی کوئی گری پڑی چیز تلاش کرنے اور نگرانی رکھنے پر ان کو مامور کیا گیا تھا) ۔ وہ رات کے آخری حصہ میں اپنی فرود گاہ سے (حسب الحکم) روانہ ہوئے اور صبح کو میری فرود گاہ پر پہنچ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ کوئی سو رہا ہے دیکھتے ہی مجھے پہچان لیا ‘ کیونکہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَپڑھا ‘ میں ان کے پڑھنے کی آواز سے بیدار ہوگئی اور اپنا چہرہ چادر سے ڈھانک لیا ‘ خدا کی قسم انہوں نے مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کی اور سوائے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجَعُوْنَ کے اور کوئی لفظ میں نے ان سے نہیں سنا ‘ اپنی اونٹنی انہوں نے میرے پاس لا کر بٹھا دی اور اس کا دھنگنا باندھ دیا ‘ میں اٹھ کر اونٹنی پر سوار ہوگئی وہ مہار پکڑے ہوئے آگے آگے چلتے رہے ہمارا لشکر ٹھیک دوپہر کے وقت ایک جگہ ٹھہر گیا تھا ‘ میں اس طرح لشکر تک پہنچ گئی۔ میرے معاملہ میں جس (تہمت تراش) کو ہلاک ہونا تھا وہ (غلط افواہیں پھیلا کر) مارا گیا۔ اس تہمت تراشی کا سب سے بڑا ذمہ دار عبداللہ بن ابی سلول تھا ‘ میں مدینے پہنچ کر بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ بیمار رہی لوگ الزام تراشوں کی باتوں میں مشغول تھے۔ بیماری کے زمانے میں مجھے پتہ نہیں تھا صرف یہ بات میرے لئے ضرور پریشان کن اور شبہ پیدا کرنے والی تھی کہ رسول اللہ ﷺ : کو وہ التفات میری طرف نہ تھا جو میری بیماری میں پہلے ہوا کرتا تھا ‘ بس اتنی بات ہوتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ (حسب معمول) آتے اور سلام علیک کرتے اور فرماتے تم لوگ کیسے ہو پھر واپس چلے جاتے اس سے مجھے شبہ ہوتا پریشانی ہوتی ‘ لیکن راز کا پتہ نہ تھا۔ جب میں اچھی ہوگئی مگر کمزور تھی تو ایک رات کو ام مسطح کو ساتھ لے کر میں مناصع کی طرف جانے کے لئے نکلی پہلے ہمارے گھروں کے پاس بیت الخلاء بنے ہوئے نہیں ہوتے تھے ‘ رفع ضرورت کے لئے رات کو ہم جنگل کی طرف عربوں کے پہلے رواج کے مطابق جایا کرتے تھے ہم کو گھروں کے قریب ٹٹیاں بنانے سے (بدبو سے) ایذا ہوتی تھی۔ (مسطح کی ماں ابو وہم بن عبدمناف کی بیٹی تھی اور مسطح کی نانی صخر بن عامر کی بیٹی تھی صخر کی بیٹی حضرت ابوبکر ؓ صدیق کی خالہ تھی اور اس کا بیٹا مسطح بن اثاثہ تھا) غرض میں اور ام مسطح دونوں ساتھ ساتھ ضرورت سے فارغ ہو کر گھر کی طرف کو لوٹے ‘ ام مسطح کا پاؤں چادر میں الجھ گیا اور اس نے ٹھوکر کھائی گرتے ہی اس کے منہ سے نکلا مسطح مرے ‘ میں نے کہا تم نے یہ بہت بری بات کہی ‘ کیا تم ایسے شخص کو کوس رہی ہو جو بدر میں شریک تھا۔ ام مسطح نے کہا بیٹی کیا تم نے اس کی بات نہیں سنی ؟ میں نے کہا اس نے کیا کہا ؟ اس پر ام مسطح نے مجھے تہمت تراشوں کی کہی ہوئی بات بتائی ‘ اس بات کو سن کر میری بیماری اور بڑھ گئی ‘ جب گھر لوٹ کر آئی اور رسول اللہ ﷺ (حسب معمول) تشریف لائے اور دریافت کیا آپ ﷺ لوگ کیسے ہیں تو میں نے کہا کیا آپ ﷺ : کی اجازت ہے میں اپنے والدین کے گھر جانا چاہتی ہوں۔ میرا خیال تھا کہ مجھے یقینی خبر ماں باپ سے مل جائے گی ‘ آپ نے اجازت دے دی میں والدین کے گھر پہنچی اور اپنی والدہ سے پوچھا اماں لوگ یہ کیا باتیں کر رہے ہیں والدہ نے کہا بیٹا تم اس کا رنج نہ کرو جب کوئی عورت کسی شوہر کی نظر میں چمکیلی ہوتی ہے اور شوہر اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوتی ہیں تو سوکنیں اس کے خلاف بڑی بڑی باتیں بناتی ہیں میں نے کہا سبحان اللہ لوگ یہ باتیں کہہ رہے ہیں ‘ میں اس خبر کو سن کر رات بھر روتی رہی صبح تک نہ میرا آنسو تھما نہ نیند آئی ‘ پھر صبح کو بھی روتی رہی۔ ادھر رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو مشورہ کے لئے بلایا کیونکہ وحی آنے میں دیر ہوگئی تھی (مدت سے وحی نہیں آئی تھی) اسامہ رسول اللہ ﷺ : کی بیوی کی پاک دامنی سے واقف تھے انہوں نے پاک دامن ہونے کا ہی مشورہ دیا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ اسامہ کے دل میں رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں کی محبت تھی اسی کے مطابق انہوں نے مشورہ دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ آپ کی بیوی ہیں اور ہم تو ان کو اچھا ہی جانتے ہیں لیکن علی ؓ نے کہا آپ کے لئے اللہ نے کوئی تنگی نہیں رکھی ان کے علاوہ بہت عورتیں ہیں۔ آپ ﷺ خادمہ سے دریافت کریں وہ سچ سچ کہہ دے گی ‘ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا کیا تو نے عائشہ ؓ کی کوئی ایسی حرکت دیکھی ہے جس سے تیرے دل میں کوئی شک گزرا ہوا بریرہ نے کہا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا ہے میں نے عائشہ ؓ کی کوئی بات ایسی نہیں دیکھی کہ میں نکتہ چینی کرسکوں ہاں بس اتنی بات ضرور ہے کہ وہ چونکہ کم سن لڑکی ہے سو جاتی ہے آٹا گوندھا ہوا رکھا رہتا ہے بکری آتی ہے اس کو کھا جاتی ہے۔ اس تحقیقات کے بعد رسول اللہ ﷺ : منبر پر تشریف لے گئے اور عبداللہ بن ابی کی طرف سے معذرت پیش کرنے کے خواستگار ہوئے اور فرمایا اے گروہ اہل اسلام میرے گھر والوں کے معاملہ میں عبداللہ بن ابی کی ذات سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے کیا کوئی اس کی طرف سے میرے سامنے کوئی عذر پیش کرسکتا ہے خدا کی قسم مجھے اپنی بیوی کے متعلق (کوئی بات نہیں معلوم ہوئی) اچھائی ہی معلوم ہوئی لوگ ایک ایسے آدمی کا نام لے رہے ہیں جس کے اندر مجھے کوئی برائی معلوم نہیں ہے (وہ اچھا ہی ہے) اور وہ میرے گھر کے اندر میرے ساتھ ہی جاتا ہے ‘ (تنہا نہیں جاتا) یہ سن کر سعد بن معاذ اشہلی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (اگر آپ ﷺ : کی طرف سے تہمت تراش کو کچھ دکھ پہنچ جائے تو) میں آپ کو معذور جانتا ہوں اگر وہ اوس کے قبیلہ میں ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر ہمارے خزرجی بھائیوں میں سے ہے تو آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ یہ بات سن کر قبیلۂ کزرج کا ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا۔ حسان کی ماں اس شخص کے چچا کی بیٹی تھی ‘ یعنی سعد بن عبادہ سردار خزرج کھڑے ہوئے پہلے یہ نیک آدمی تھے لیکن قبیلہ کی حمیت ان پر سوار ہوگئی اور سعد بن معاذ سے کہنے لگے خدا کی قسم تم نے جھوٹ کہا تم نہ اس کو قتل کرو گے نہ اس کو قتل کرنے کی تم میں ہمت ہے اور اگر تمہارے قبیلہ والوں میں سے وہ ہوتا تو میرے خیال میں تم اس کو قتل (کرنے کا ارادہ ہی) نہ کرتے اس پر سعد بن معاذ کے چچا زاد بھائی اسید بن حضیر نے سعد بن عبادہ سے کہا تم نے خدا کی قسم جھوٹ کہا ہم اس کو ضرور بالضرور قتل کردیں گے تم یقیناً منافق ہو منافقوں کی طرف سے لڑتے ہو اس کے بعد اوس اور خزرج دونوں قبیلے جوش میں آگئے قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں رسول اللہ ﷺ : منبر پر موجود تھے آپ سب کو ٹھنڈا کر رہے تھے آخر سب خاموش ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا میں اس روز بھی دن بھر روتی رہی اور رات بھر بھی میرا آنسو نہ تھما نہ نیند آئی۔ والدین کو اندیشہ ہوگیا کہ روتے روتے میرا جگر پھٹ جائے گا ‘ دونوں حضرات میرے پاس بیٹھے ہی ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ‘ میں نے اجازت دے دی وہ آکر بیٹھ گئے اور میرے ساتھ رونے لگی۔ کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ : تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے اس سے پہلے جب سے میرے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہوئی تھیں رسول اللہ ﷺ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ کا وقفہ گزر چکا تھا اس عرصہ میں میرے معاملے کے متعلق کوئی وحی بھی نہیں آئی تھی بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ نے اوّل کلمۂ شہادت پڑھا ‘ پھر فرمایا عائشہ ؓ مجھے تیرے متعلق ایسی ایسی خبریں پہنچی ہیں اگر تو ان سے پاک ہے تو اللہ تیری پاکی ظاہر فرما دے گا اور اگر تو اتفاقاً کسی گناہ میں مبتلا ہوگئی ہے تو اللہ سے توبہ و استغفار کر ‘ بندہ جب گناہ کا اقرار کرلیتا ہے اور معافی کا طلبگار ہوتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے ‘ جب رسول اللہ ﷺ اپنی بات پوری کرچکے تو میرے آنسو تھم گئے کہ ایک قطرہ بھی نکلتا مجھے محسوس نہ ہوا پھر میں نے اپنے والد سے کہا رسول اللہ ﷺ : کی بات کا جواب دیجئے ‘ والد نے کہا خدا کی قسم مجھے کوئی جواب معلوم نہیں کیا جواب دوں۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے یہی بات کہی کہ آپ جواب دیجئے ‘ انہوں نے بھی والد کی طرح یہی کہا میں کیا کہوں مجھے کوئی جواب معلوم نہیں ‘ آخر میں نے خود کہا (اس قت میں نو عمر لڑکی تھی زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا) خدا کی قسم میں جان گئی کہ تم لوگوں نے یہ بات سن کر اپنے دلوں میں جما لی ہے اور اس کو سچ ماننے لگے ہو اگر اب میں کہوں کہ میں اس سے پاک ہوں اور خدا جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو تم مجھے سچا نہ جانو گے اور اگر میں تمہارے سامنے اقرار کرلوں اور خدا جانتا ہے کہ میں اس فعل سے پاک ہوں تو تم مجھے سچاسمجھو گے (اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتی) مجھے اپنی اور تمہاری حالت کی سوائے اس کے اور کوئی مثال نہیں ملتی جو یوسف ( علیہ السلام) کے باپ نے کہا تھا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ (پس میں بھی یہی کہتی ہوں) یہ کہنے کے بعد میں نے منہ موڑ لیا اور بستر پر لیٹ گئی۔ میں یہ تو جانتی تھی کہ چونکہ میں پاک ہوں ‘ اللہ ضرور میری پاکی کا اظہار فرما دے گا ‘ لیکن میرا یہ گمان بھی نہ تھا کہ میرے معاملے میں اللہ کوئی ایسی وحی نازل فرمائے گا جو (ہمیشہ قرآن) میں پڑھی جائے گی۔ میرے دل میں میری حالت اس قابل نہ تھی کہ اللہ اس کے سلسلہ میں اپنا کلام نازل فرماتا جو (ہمیشہ) پڑھا جائے گا۔ مجھے تو یہ امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ : کو اللہ کی طرف سے میری پاک دامنی کا کوئی خواب دکھا دیا جائے گا۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے ہٹے بھی نہ تھے اور نہ کوئی گھر والا باہر نکلا تھا کہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ پر وحی نازل فرما دی اور نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر جو تکلیف ہوئی تھی وہ ہونے لگے ‘ سخت سردی کے زمانے میں نزول وحی کے وقت چاندی کے موتیوں جیسے پسینے کے قطرے (آپ کی پیشانی سے) ٹپکنے لگتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد وحی کی وہ حالت دور ہوئی اور ہنستے ہوئے جو لفظ آپ نے سب سے پہلے اپنے منہ سے نکالا وہ یہ تھا ‘ عائشہ ؓ خوش ہوجا ‘ اللہ نے تیری پاک دامنی کا اظہار کردیا ‘ میری ماں نے کہا اٹھ رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ۔ میں نے کہا خدا کی قسم میں نہ اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف جاؤں گی نہ اللہ کے سوا کسی کا شکر کروں گی ‘ اللہ نے میری پاکی ظاہر فرمائی ‘ اللہ نے مندرجۂ ذیل آیات نازل فرمائیں۔
Top