Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 9
وَ الْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَیْهَاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالْخَامِسَةَ : اور اَنَّ : یہ کہ غَضَبَ اللّٰهِ : اللہ کا غضب عَلَيْهَآ : اس پر اِنْ : اگر كَانَ : وہ ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اور پانچویں دفعہ یوں (کہے) کہ اگر یہ سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب (نازل ہو)
والخامسۃ ان غضب اللہ علیہا ان کان من الصدقین۔ اور پانچویں یہ کہ اللہ کا غضب آئے اس عورت پر اگر وہ شخص سچا ہے۔ العذاب سے مراد ہے حد زنا جس طرح آیت (فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلٰی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَاب) ِمیں العذاب سے حد زنا مراد ہے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہلال کی بیوی سے فرمایا تھا وَاِنَّ عَذَاب اللّٰہِ اَشَدُّ مِنْ عَذَاب النَّاسِاللہ کا عذاب لوگوں کے عذاب یعنی حد زنا سے زیادہ سخت ہے۔ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ کا یہ مطلب ہے کہ یہ شخص جو زنا کی تہمت مجھ پر لگا رہا ہے یا اپنا بچہ ہونے کا انکار کر رہا ہے ان دونوں باتوں میں یہ جھوٹا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ پہلی بات میں جھوٹا ہے یا یہ مراد ہے کہ دوسری بات میں جھوٹا ہے۔ امام مالک (رح) ‘ امام شافعی (رح) اور امام احمد کے نزدیک مرد کے لعان کرتے ہی حد زنا عورت پر واجب ہوجاتی ہے۔ لیکن جب عورت لعان کرلیتی ہے تو وہ حد ساقط ہوجاتی ہے آیت کا مفہوم یہی ہے۔ آیت میں العذاب سے مراد حد زنا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا عورت کے لعان کرنے سے صرف ایک ہی حکم کا تعلق ہوتا ہے یعنی حد زنا ساقط ہوجاتی ہے ‘ اگر مرد گواہوں سے زنا ثابت کر دے تو لعان بیکار ہے۔ حد زنا اس سے ساقط نہیں ہوسکتی۔ اب اگر عورت نے لعان سے انکار کردیا تو حد زنا واجب ہوگئی۔ امام صاحب نے فرمایا اگر عورت لعان سے انکار کر دے تو اس کو قید کردیا جائے گا اور اس وقت تک قید رکھا جائے گا کہ وہ یا تولعان کرے یا مرد کی تصدیق کرے اگر اس نے مرد کی تصدیق کردی تو وجوب لعان کا سبب (یعنی عورت کا انکار) نہ رہا اس لئے لعان کا حکم باقی نہیں رہا اور نہ حد زنا کا وجوب ہوگیا کیونکہ تصدیق براہ راست بالذات اقرار نہیں ہے اس لئے اس سے حد کا وجوب نہیں ہوجاتا ‘ ہاں لعان کا حکم جاری رہتا ہے اور اگر بالفرض تصدیق کو اقرار مان بھی لیا جائے تو ایک ہی مرتبہ حد زنا جاری کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ‘ پھر یہ کہنا کہ یَدْرَؤْ عَنْہَا الْعَذَابَمیں العذاب سے مراد حد زنا ہے یہ بات بھی بلا دلیل ہے کیونکہ قید کرنا بھی مراد ہوسکتا ہے ‘ قید بھی عذاب ہے۔ بہرحال شبہ پیدا ہوگیا اور شبہات سے حدود ساقط ہوجاتی ہیں۔ مسئلہ اگر عورت نے اس بات کی تصدیق کردی کہ واقعی یہ بچہ شوہر کا نہیں ہے انکار ولد میں یہ سچا ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس صورت میں نہ لعان کا حکم باقی رہے گا نہ حد زنا ثابت ہوگی اور بچہ دونوں کا مانا جائے گا کیونکہ لعان ہوجاتا تو بچے کی نسبت پھر شوہر سے نہ ہوتی لیکن لعان نہ ہوا اور زوجین سے نسبی الحاق بچے کا حق ہے اس لئے زوجین کے کہنے سے اس حق کا ابطال نہیں ہوسکتا۔ میں کہتا ہوں امام شافعی (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) دونوں کے قول میرے لئے تعجب خیز ہیں ‘ امام شافعی (رح) کے قول پر تو تعجب کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک لعان (یعنی لعان کی شہادت) قسم ہے اسی لئے وہ مرد کیلئے شہادت کی اہلیت کی شرط ضروری نہیں قرار دیتے اور ہر مرد کے لئے لعان کا حکم جاری کرتے ہیں خواہ قاذف غلام ہو یا کافر یا اس سے پہلے تہمت زنا کا سزا یافتہ ہو (کیونکہ یہ سب لوگ قسم کھا سکتے ہیں گو اہل شہادت نہیں ہیں) اور ظاہر ہے کہ قسم موجب مال بھی نہیں ہوسکتی (اگر مدعی قسم کھا کر کہے کہ میرا اتنا روپیہ فلاں شخص پر قرض ہے اور مدعیٰ علیہ انکار کرے اور مدعی کے پاس ثبوت کے گواہ نہ ہوں تو مدعی کے صرف قسم کھانے سے مال کا وجوب مدعی علیہ پر نہیں ہوجاتا) اور جب قسم سے وجوب مال نہیں ہوجاتا تو عورت کو سنگسار کرنے کا وجوب کیسے ہوسکتا ہے۔ رجم تو ہر حد سے زیادہ سخت سزا ہے۔ امام صاحب کا قول یوں عجیب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک لعان قسم نہیں شہادت ہے اسی لئے لعان کرنے والے کے لئے شہادت کی اہلیت ان کی نظر میں ضروری ہے اور یہ بھی امام صاحب نے فرمایا کہ ایک محل میں چار شہادتیں ایک ہی شخص کی یہ زنا کے شاہدوں کے قائم مقام ہیں زنا کے چار گواہ ہونے ضروری ہیں اس لئے شاہد نہ ہونے کی صورت میں چار بار خود شہادت دینی ضروری ہے اور یہ بھی آپ نے فرمایا کہ مرد کے حق میں یہ چار شہادتیں حد قذف کے قائم مقام ہیں اور عورت کی چار شہادتیں حد زنا کے قائم مقام ہیں پھر تعجب ہے کہ مرد کی چار مرتبہ شہادتوں کے بعد حد زنا عورت پر امام صاحب کے نزدیک کیوں واجب نہیں ہوجاتی۔ اللہ نے تو (یَدْرَؤَ عَنْہَا الْعَذَابَ ) فرمایا ہے یعنی عورت کے لعان سے عذاب ساقط ہوجاتا ہے۔ درء کا لفظ خاص ہے اس کا معنی ہے ساقط کرنا یعنی موجب عذاب نہ رہے تو عذاب ساقط ہوجاتا ہے۔ (معلوم ہوتا ہے کہ انکار لعان کی صورت میں حد زنا کا وجوب ہوجاتا ہے اور لعان کے بعد حد زنا کا سقوط ہوجاتا ہے) ۔ عورت کے حق میں جو لعان کو حد زنا کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر عورت لعان کرے گی تو حد زنا اس پر جاری نہ ہوگی اور لعان سے انکار کر دے گی تو حد زنا جاری ہوگی (انکار لعان کی صورت میں قید کردینے کی سزا کہاں سے نکل سکتی ہے عورت کا لعان تو حد زنا کے قائم مقام ہے قید کے قائم مقام نہیں ‘ پس لعان سے انکار کی صورت میں حد زنا جاری ہوجانی چاہئے۔ ) ایک شبہ شوہر کی چار شہادتیں اگرچہ چار مرد گواہوں کی شہادتوں کے قائم مقام ہیں ‘ لیکن قائم مقام ہونے کا یہ معنی نہیں کہ ان سے زنا کا یقینی ثبوت ہوجاتا ہے ان چار شہادتوں کا چارگواہوں کی شہادتوں کے قائم مقام ہونا مشتبہ ضرور ہوتا ہے اس لئے حد قذف تو اس کی وجہ سے ساقط ہوجائے گی اور حد زنا ثابت نہیں ہوگی۔ حدود شبہات سے ساقط ہوجاتی ہیں۔ ازالہ مدعی کی چار شہادتوں کا چار مردوں کی شہادتوں کے قائم مقام ہونا تو یقینی اور قطعی ہے اس کا ثبوت قرآن سے بھی ہے اور حدیث سے بھی اور اجماع امت سے بھی ‘ ہاں زنا کا قطعی ناقابل شک ثبوت مدعی کی چار شہادتوں سے نہیں ہوتا تو چار گواہوں کی شہادتوں سے بھی ناقابل شک ثبوت زنا کا نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ چاروں نے جھوٹی شہادت دینے پر اتفاق کرلیا ہو اور کوئی خبر بھی ایسی نہیں ہوتی کہ اس میں جھوٹی ہونے کا احتمال ہی نہ ہو۔ ہاں اگر حد تواتر تک پہنچ جائے اور خبر دینے والا منجانب اللہ معصوم ہو تو ضرور موجب یقین اور قطعیت ہوجاتی ہے۔ دو یا چار گواہوں کی شہادت پر حاکم جو فیصلہ کردیتے ہیں وہ صرف حکم شریعت کی تعمیل ہے اس سے غلبۂ ظن حاصل ہوجاتا ہے اور غلبۂ ظن کی بنا پر حاکم فیصلہ کردیتا ہے یہ مطلب نہیں کہ اس سے حاکم کو یقین ہوجاتا ہے مگر وہ حکم شریعت کی وجہ سے معذور ہے۔ جب چار مردوں کی شہادتوں سے زنا کا ثبوت (شرعی) ہوجاتا ہے اور حد زنا جاری ہوجاتی ہے تو مدعی کا چار مرتبہ قسم کھا کر شہادت دینا تو زیادہ موجب ثبوت ہونا چاہئے۔ اس کی شہادتیں تو اتنی پختہ ہوتی ہیں کہ دروغ ہونے کی صورت میں وہ اپنے لئے اللہ کی لعنت کا خواستگار ہوتا ہے۔ پھر وہ عادل بھی ہوتا ہے فاسق نہیں ہوتا۔ شہادت کی ہر طرح اہلیت بھی رکھتا ہے اور اسی کے ساتھ عورت لعان سے انکار بھی کرتی ہے۔ دیکھو چار آدمی (جھوٹ پر) اگر متفق ہوجائیں تو ناممکن نہیں ہے اور کسی عورت کا شوہر اگر اس پر زنا کی تہمت لگاتا ہے اور عورت کو یقین بھی ہے کہ اگر میں لعان کرلوں گی تو زنا کی سزا سے بچ جاؤں گی اور باوجود اس کے وہ لعان سے گریز کرتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ شوہر کی تصدیق کرتی ہے رہی یہ بات کہ شبہ سے حدود ساقط ہوجاتی ہیں تو اس سے مراد اس قسم کا شبہ نہیں ہے یہ شبہ شریعت کی نظر میں ہیچ ہے ایسا شبہ تو بہرحال باقی رہتا ہے ‘ چار شخص گواہی دے دیں یا شوہر لعان کرلے اور عورت لعان سے انکار کر دے بہرحال جھوٹ کا وہم تو باقی رہتا ہی ہے۔ پس میرے نزدیک امام ابوحنیفہ (رح) نے شوہر کے لئے اہلیت شہادت کی جو شرط ضروری قرار دی ہے اور عورت کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ اس درجہ کی ہو کہ اس پر الزام رکھنے والے کو (ثبوت نہ ہونے کی صورت میں) قذف کی سزا دی جاسکے امام صاحب کا یہ قول زیادہ صحیح اور قابل ترجیح ہے اسی طرح امام شافعی (رح) نے جو فرمایا ہے کہ اگر عورت لعان سے گریز اور انکار کرے تو اس پر حد زنا جاری کی جائے سو امام شافعی کا یہ قول اقرب الی الصحت ہے۔ مسئلہ امام شافعی (رح) : کا قول اوپر گزر چکا ہے کہ فقط مرد کے لعان کرتے ہی زوجین میں فرقت ہوجاتی ہے یہ قول بےدلیل ہے۔ امام زفر امام مالک اور (ایک روایت میں) امام احمد (رح) : کا قول ہے کہ جب دونوں لعان کر گزریں تو زوجین میں فرقت ہوتی ہے خواہ حاکم نے فیصلہ نہ کیا ہو لیکن امام ابوحنیفہ (رح) :‘ امام محمد (رح) :‘ امام ابو یوسف (رح) اور (ایک روایت میں) امام احمد (رح) : کا قول ہے کہ حاکم کے فیصلہ سے پہلے فرقت نہیں ہوجاتی خواہ دونوں لعان کرچکے ہوں ‘ فریقین کے لعان کر چکنے کے بعد دونوں میں تفریق کرا دینا حاکم پر واجب ہوجاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد (رح) کے نزدیک یہ فرقت ایک طلاق بائنہ ہوگی ‘ باقی اماموں کے نزدیک طلاق بائن نہیں ہے بلکہ اس کو فسخ نکاح قرار دیا جائے گا۔ موخر الذکر قول کی دلیل یہ ہے کہ حرمت رضاعت کی طرح لعان سے دوامی حرمت ہوجاتی ہے۔ (اور اسی کا نام فسخ ہے) صحیحین میں حضرت ابن عمر ؓ : کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں لعان کرنے والوں (یعنی مرد اور عورت) سے فرمایا تمہارا حساب اللہ کے ذمے ہے یقینی بات ہے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے (مرد کو مخاطب کر کے فرمایا) اب تیری اس پر کوئی راہ نہیں (یعنی اس سے ملنے کا اب تیرے لئے کوئی راستہ نہیں رہا دوامی انقطاع ہوگیا) اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا مال (یعنی جو مہر میں نے دیا اس کا کیا ہوگا) فرمایا اگر تو نے اس پر سچا الزام لگایا ہے تو مال (مہر) اس حلت کا معاوضہ ہوگیا جو تجھے اس سے جماع کرنے کی حاصل تھی (یعنی تو اس سے قربت کرچکا مہر اس کا معاوضہ ہوجائے گا) اور اگر تو نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے تو یہ مال بہت دور چلا گیا اس لئے تیرے لئے اب کوئی مال نہیں ہوسکتا۔ ابو داؤد نے حضرت سہل بن سعد کی راویت سے لعان کرنے والے مرد و عورت کے مقدمہ میں جو حدیث بیان کی ہے وہ اوپر گزر چکی ہے کہ دونوں میں (دوامی) تفریق کرا دی جائے کہ آئندہ کبھی دونوں نہ مل سکیں۔ دارقطنی نے حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے بھی ایسا ہی بیان کیا ہے۔ شیخ ابن حجر نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؓ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے اس باب میں روایات عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ کے مصنف میں منقول ہیں۔ ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے حضرت ہلال بن امیہ کے قصہ کے آخر میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں میں تفریق کرا دی اور حکم دے دیا کہ عورت پر تہمت زنا قائم نہ کی جائے اور نہ اس کے بچہ کو ولد الزناء کہا جائے۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے لعان کیا۔ لعان کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دونوں میں تفریق کرا دی اور بچہ کا نسب ماں سے ملا دیا۔ (لعان کرنے والے مرد کو اس کا باپ نہیں قرار دیا نہ بچہ کو ولد الزنا قرار دیا) جمہور ائمہ کے قول کی سب سے واضح دلیل وہ روایت ہے جو ہلال بن امیہ کے قصہ میں حضرت ابن عباس ؓ کے حوالے سے ابو داؤد نے سنن میں بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعان کے بعد فیصلہ فرما دیا کہ (تفریق کے بعد) عورت کا نفقہ مرد پر نہیں ہے نہ رہنے کی جگہ دینا مرد کے ذمے ہے۔ کیونکہ دونوں میں تفریق ہوئی ہے نہ عورت بیوہ ہوئی ہے کہ اس کا شوہر مرگیا ہو نہ مرد نے اس کو طلاق دی ہے ‘ لعان کے بعد جب خود دوامی حرمت ثابت ہوگئی تو اب حاکم کی تفریق کی ضرورت نہیں۔ دوامی حرمت نکاح کے منافی اسی طرح ہے جس طرح حرمت رضاعت نکاح کے خلاف ہے اس لئے حرمت لعان کو فسخ نکاح قرار دیا جائے گا (طلاق بائنہ نہیں مانا جائے گا) ۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ثبوت حرمت فسخ نکاح کا تقاضا نہیں کرتا۔ دیکھو ظہار سے حرمت ہوجاتی ہے اور نکاح فسخ نہیں ہوتا (بلکہ کفارۂ ظہار ادا کرنے کے بعد پھر حلت ہوجاتی ہے) ہاں ثبوت حرمت کے بعد شوہر بیوی کو دستور شرعی کے مطابق اپنے پاس رکھنے سے جب قاصر ہے تو اچھی طرح بحسن و خوبی عورت کو آزاد کردینا اس پر لازم ہے اور جب اس نے ایسا نہیں کیا تو حاکم نے قائم مقام کی حیثیت سے عورت کو اس سے الگ کردیا تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔ اس کا ثبوت صحیحین کی اس روایت سے ہوتا ہے جس کے راوی حضرت سہل بن سعد ہیں کہ دونوں کے لعان کر چکنے کے بعد عویمر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اب اگر میں نے اس کو اپنے پاس روکے رکھا (یعنی اپنے نکاح میں رکھا) تو (گویا) میں نے اس پر جھوٹی تہمت تراشی کی چناچہ لعان کے بعد عویمر نے اس کو تین طلاقیں دے دیں اور رسول اللہ ﷺ نے طلاق دینے کے سلسلے میں اس کے خلاف کچھ نہیں فرمایا۔ دارقطنی نے جو حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ : کی حدیث نقل کی ہے کہ دونوں کو الگ الگ کردیا جائے آئندہ یہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ اس کا فرمان رسول ہونا محل نظر ہے۔ شیخ ابوبکر رازی نے اس کے فرمان رسول ہونے پر نکتہ چینی کی ہے۔ صاحب تنقیح نے لکھا ہے اس کی سند جید ہے (اس لئے اس کا فرمان رسول ہونا محقق ہے) اور اس کا مفہوم بتارہا ہے کہ صرف لعان کرنے سے دونوں الگ الگ نہیں ہوجاتے (بلکہ فرمان حاکم کی ضرورت ہے یا اس مرد کا طلاق دینا لازم ہے) امام شافعی (رح) کے خلاف اس حدیث کا مفہوم ایک بڑی دلیل ہے۔ رہی حضرت ابن عباس ؓ کی یہ روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرما دیا کہ مرد پر عورت کا نہ نفقہ ہے نہ مسکن اس لئے کہ دونوں بغیر طلاق کے الگ الگ ہوجاتے ہیں تو نفقہ و مسکن نہ ہونے کی یہ دلیل حضرت ابن عباس ؓ کی اجتہادی رائے کا نتیجہ ہے ( رسول اللہ ﷺ نے یہ دلیل بیان نہیں فرمائی) مرفوع حدیث تو اتنی ہے کہ (لعان ہو چکنے کے بعد) مرد پر عورت کا نہ نفقہ ہے نہ حق سکنیٰ ۔ میں کہتا ہوں لعان کے بعد حرمت ہوجانا باجماع علماء ثابت ہے۔ امام شافعی ‘ امام زفر اور دوسرے ائمہ کے نزدیک تو حرمت کا ثبوت ظاہر ہے (کہ یہ حضرات لعان کو فسخ نکاح قرار دیتے ہیں اور لعان کے بعد بغیر حکم حاکم کے فرقت واقع ہوجاتی ہے) اور امام ابوحنیفہ (رح) کے قول پر بھی حرمت کا ثبوت یقینی ہے ورنہ رسول اللہ ﷺ لعان کے بعد دونوں میں تفریق نہ کراتے امام صاحب خود قائل ہیں کہ لعان کے بعد قاضی دونوں میں تفریق کرا دے۔ لیکن یہ حرمت دوامی ہے ‘ حرمت ظہار کی طرح نہیں ہے حرمت ظہار تو کفارہ ادا کرنے سے ختم ہوجاتی ہے اور حرمت دوامی نکاح کے بالکل منافی ہے ‘ ہنگامی حرمت سے تو نکاح باقی رہتا ہے (نکاح کے فائدے سے وقتی محرومی ہوجاتی ہے) اور حرمت دوامی کا معنی سوائے فسخ نکاح کے اور کچھ نہیں ہے اور جب لعان سے خود نکاح فسخ ہوگیا تو حاکم کے حکم کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ابن ہمام نے خود لکھا ہے کہ امام ابو یوسف کے قول پر قضاء قاضی پر تفریق موقوف نہیں رہتی کیونکہ قضاء قاضی سے پہلے ہی حرمت باتفاق علماء ثابت ہو چکتی ہے۔ امام صاحب کا یہ قول کہ چونکہ شوہر لعان کے بعد بیوی کو دستور شرعی کے مطابق اپنے پاس روک نہیں سکتا اس لئے حاکم عورت کو آزاد کر ادینے کا فیصلہ کر دے تسریح بالاحسان کے لئے قاضی شوہر کا قائم مقام ہے۔ یہ قول چاہتا ہے کہ لعان کے بعد قاضی شوہر کو طلاق دینے کا حکم دے اگر وہ طلاق نہ دے تو قاضی تفریق کا حکم جاری کر دے اور حکم تفریق بعد الانکار جاری کرنے کا تو کوئی بھی قائل نہیں نہ رسول اللہ ﷺ نے طلاق دینے کا حکم دیا (عویمر نے خود طلاق دی) ۔ رہی یہ بات کہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول (عورت کے لئے نہ نفقہ ہے نہ حق سکنیٰ کیونکہ بغیر طلاق کے دونوں میں تفریق ہوجاتی ہے) گو حدیث رسول اللہ ﷺ نہ ہو لیکن مرفوع کے حکم میں ہے کیونکہ آپ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کی حقیقت اور کیفیت سے واقف تھے (جانتے تھے کہ حضور ﷺ نے عورت کو نفقہ اور سکونت کے حق سے کیوں محروم قرار دیا) باقی یہ بات کہ جب تفریق لعان سے ہی ہوگئی تو عویمر نے طلاق دینی کیوں ضروری سمجھی تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عویمر کو اس وقت تک معلوم نہ ہوگا کہ لعان سے خود تفریق ہوجاتی ہے۔ رہا مفہوم شرط کا شافعی (رح) کے نزدیک حجت ہونا تو بیشک شافعی مفہوم شرط کو حجت جانتے ہیں لیکن اس جگہ چونکہ دوامی حرمت ثابت ہے اس لئے مفہوم شرط پر عمل ترک کردیا گیا۔ یا یوں کہا جائے کہ اَلْمُتَلاَعِنَانِ اِذَا افْتَرَ قَالاَ یَجْتَمِعَانِ اَبَدًا کا یہ مطلب ہے کہ جب دونوں لعان کرچکے تو دونوں جدا ہوگئے ‘ آئندہ کبھی دونوں ساتھ نہیں رہیں گے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک حدیث المتبایعان بالخیار ما لم یتفرقا کا یہ مطلب ہے کہ جب تک ایجاب و قبول نہ ہوگیا ہو اور قولی تفریق نہ ہوگئی ہو اس وقت تک ہر شخص کو بیع نہ کرنے کا اختیار ہے۔ (یعنی اس حدیث میں امام صاحب کے نزدیک تفرق سے مراد قولی تفرق ہے پس اسی طرح حدیث اِذَا افْتَرَقَا لاَ یَجْتَمِعَانِمیں افتراق قولی (یعنی قول لعان) مراد ہے۔ مسئلہ لعان کر چکنے کے بعد اگر شوہر خود اپنی تکذیب کرلے اور اپنے جھوٹے ہونے کا اظہار کر دے تو کیا عورت سے دوبارہ اس کا نکاح ہوسکتا ہے یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ امام شافعی (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک اس کا اقرار تکذیب مان تو لیا جائے گا لیکن صرف اس حد تک کہ جھوٹی تہمت زنا لگانے سے جو ضرر اس کو پہنچتا ہے وہ پہنچ جائے گا اور جو فائدہ پہنچ سکتا ہے وہ نہ پہنچے گا مطلب یہ کہ حد قذف اس پر جاری کی جائے گی اور بچہ اس کا مانا جائے گا لیکن حرمت دوامی دور نہ ہوگی اس عورت سے نکاح کبھی نہ کرسکے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا (اور ایک روایت میں امام احمد کا بھی یہی قول ہے) کہ حد قذف جاری کی جائے گی اور چونکہ قذف کے اقرار کے بعد وہ لعان کا اہل نہیں رہا تو لعان کو صحیح نہیں مانا جائے گا اور جو حکم (یعنی نکاح جدید نہ کرسکنے کا حکم) لعان سے وابستہ تھا وہ بھی اٹھ جائے گا اور دوبارہ نکاح کرسکے گا اسی طرح اگر کسی دوسرے شخص پر تہمت زنا لگانے کی وجہ سے اس پر حد قذف جاری کردی گئی ہو (تو لعان کا اہل نہیں رہے گا) یہی حکم اس وقت ہوگا جب عورت زنا کرچکی ہو اور سزا یاب ہوچکی ہو تو اہل لعان نہیں رہے گی۔ اس لئے ان دونوں لعان کرنے والوں کے لئے جائز ہوگا کہ (شوہر نے جب اپنی تکذیب خود کردی تو) دونوں باہم نکاح کرلیں۔ ہم کہتے ہیں اہلیت لمعان ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ لعان ہوا ہی نہیں (اور جب لعان ہوگیا تو پھر تزوج کے ناجائز ہونے کا حکم جاری رہے گا) دیکھو اگر کسی نے کسی اور پر الزام زنا رکھا (اور زنا ثابت نہ کرسکا) اور اس پر حد قذف جاری کردی گئی پھر مقذوف نے (یعنی جس پر جھوٹی تہمت زنا لگائی تھی اس نے) زنا کیا اور زنا کی سزا اس کو دے دی گئی تو باوجودیکہ زانی اہل لعان نہیں ہوتا پھر بھی اس کے قاذف کی شہادت کبھی قبول نہیں کی جائے گی (بالکل یہی صورت اختلافی مسئلہ کی ہے کہ اپنی خود تکذیب کرنے کی وجہ سے وہ اہل لعان نہیں رہا۔ لیکن جو لعان ہوچکا اس کا حکم باقی رہے گا اور کبھی لعان کرنے والی عورت سے نکاح نہ کرسکے گا) ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اَلْمُتَلاَعِنَانِ لاَ یَجْتَمِعَانِ اَبَدًا قضیۂ عرفیہ ہے اور قضیۂ عرفیہ میں حکم کی بنا اتصاف پر ہوتی ہے ‘ اس صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ لعان کرنے والے جب تک صفت لعان کے ساتھ متصف رہیں گے جمع نہیں ہوسکتے (اور جب صفت لعان ختم ہوگئی تو عدم اجتماع کا حکم بھی ختم ہوگیا کیونکہ مرد نے اپنی تکذیب خود کردی تو صفت لعان جاتی رہی اور عدم اجتماع کا حکم زائل ہوگیا) ہم کہتے ہیں یہ قضیہ عرفیہ نہیں ہے ‘ قضیۂ عرفیہ میں صفت موضوع پائیدار ہوتی ہے اور لعان استمراری وصف نہیں ہے اس لئے اس جگہ حکم بشرط وصف نہیں ہوسکتا ‘ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس مرد و عورت نے کبھی لعان کرلیا ہو ان کا آئندہ کبھی نکاح میں اجتماع نہیں ہوسکتا ‘ یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جب تک وہ لعان پر قائم رہیں اور ہر ایک دوسرے کو جھوٹا کہتا رہے تو عدم تزوج کا حکم جاری رہے گا اور جب دونوں میں سے کوئی اپنے کو جھوٹا مان لے تو تزوج باہمی جائز ہوجائے گا۔ مسئلہ اگر مرد نے کہا کہ یہ بچہ مجھ سے نہیں ہے تو قاضی (لعان کے بعد) بچہ کا نسب اس شخص سے نہیں جوڑے گا (بچہ کا باپ اس سے لعان کرنے والے کو نہیں قرار دے گا) اور ماں سے اس کا الحاق کر دے گا جو لوگ لعان کے بعد تفریق کے لئے حاکم کے فیصلہ کو ضروری قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک مذکور الصدر فیصلہ کے اندر ضمنی طور پر تفریق کا فیصلہ بھی ہوجائے گا (اور جو لوگ تفریق کے لئے قضاء قاضی کی ضرورت نہیں سمجھتے ان کے نزدیک بہرحال تفریق ہوجائے گی) ۔ بصورت مذکورہ لعان کے وقت مرد کو یہ الفاظ کہنا ہوں گے کہ میں نے جو اپنا بچہ ہونے کا انکار کیا ہے ‘ خدا گواہ ہے میں اس قول میں سچا ہوں عورت بھی لعان میں ان الفاظ کا اضافہ کرے گی۔ اگر عورت کے زانی ہونے اور اپنا بچہ نہ ہونے کا مرد نے اظہار کیا ہے تو لعان میں دونوں باتوں کا ذکر کرنا ہوگا ‘ پھر بچہ کا الحاق اس کی ماں سے کردیا جائے گا ‘ حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرد اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا ‘ مرد نے اپنا بچہ ہونے کا انکار کیا تھا حضور ﷺ نے دونوں میں تفریق کرا دی اور بچہ کا الحاق ماں سے کردیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) ۔ مسئلہ اگر مرد نے عورت سے کہا تیرا (یہ) حمل مجھ سے نہیں ہے تو امام ابوحنیفہ (رح) :‘ امام زفر (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک لعان کا حکم نہیں دیا جائے (نہ مرد پر حد قذف جاری ہوگی نہ عورت کو زانیہ قرار دیا جائے گا) کیونکہ بچہ ہونا یقینی نہیں ہے (ممکن ہے حمل ہی نہ ہو) امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک لعان کرایا جائے گا امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا اگر بچہ چھ ماہ سے کم مدت میں پیدا ہوجائے گا تو لعان واجب ہوجائے گا اس قول کا مطلب یہ ہوا کہ بچے کے پیدا ہونے تک لعان نہیں کرایا جائے گا اگر چھ ماہ سے کم میں بچہ ہوگیا تو لعان واجب ہوگا ورنہ نہیں۔ بعض طرق روایت میں حضرت ہلال کے قصہ میں آیا ہے کہ لعان ولادت کے بعد کیا گیا تھا۔ صحیحین میں حضرت ابن عباس ؓ : کی روایت سے حضرت ہلال کے قصہ میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ظاہر فرما دے اور بچہ اس شخص کی شکل کے مشابہ پیدا ہوا جس کے ساتھ زنا کا الزام ہلال نے قائم کیا ‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دونوں میں لعان کرا دیا۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے اپنے قول کی دلیل میں حسب روایت ابو داؤد بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہلال اور ان کی بیوی کے درمیان تفریق کر ادی اور فیصلہ فرمایا کہ بچے کو باپ کی طرف منسوب نہ کیا جائے اور نہ اس کو ولد الزنا قرار دیا جائے اور نہ اس کی ماں کو مہتم بالزنا کیا جائے۔ جو شخص عورت کو زنا کے ساتھ اور بچہ کو ولد الزنا ہونے کے ساتھ متہم کرے اس پر حد (زنا) جاری کی جائے۔ عکرمہ نے کہا وہ بچہ مصر کا گورنر ہوا اور کسی باپ کی طرف اس کی نسبت نہیں کی جاتی تھی۔ اکثر طرق روایت میں آیا ہے کہ لعان کرنے کے وقت ہلال کی بیوی حاملہ تھی۔ نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا ‘ بیوی اس وقت حاملہ تھی۔ عبدالرزاق نے بھی یہ واقعہ اسی طرح نقل کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ شوہر نے کہا میں عفار النخل سے ہی اس (عورت) کے قریب نہیں گیا ہوں (اس لئے یہ بچہ مجھ سے نہیں ہے) عفار النخل کا یہ معنی ہے کہ شاخ تراشی کے بعد دو مہینہ تک درخت کو سینچا نہ جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ظاہر کر دے چناچہ پیدا ہوا تو بڑی بری شکل کا تھا۔ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکار حمل کی صورت میں لعان جائز ہے۔ اس حدیث کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ ہلال نے عورت پر زنا کا الزام قائم کیا تھا انکار حمل نہیں کیا تھا اسی لئے لعان کرایا گیا۔ وکیع کی روایت میں جو آیا ہے کہ ہلال منکر حمل تھے اس لئے انہوں نے لعان کیا تھا ‘ امام احمد نے اس روایت کی صحت سے انکار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ وکیع کی غلطی ہے کہ انہوں نے لعان کی وجہ انکار حمل کو قرار دیا حقیقت یہ ہے کہ ہلال جب رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بیوی کے زنا کی انہوں نے شہادت دی تو رسول اللہ ﷺ نے لعان کرایا انکار حمل لعان کی وجہ نہیں تھی۔ میں کہتا ہوں ظاہر یہ ہے کہ ہلال نے دونوں الزام قائم کئے تھے ‘ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ کی روایت سے جو قصہ نقل کیا ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اگر ہلال کی طرف سے صرف زنا کا الزام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ (صراحت کے ساتھ) اس کی طرف بچہ کو منسوب کرنے کی ممانعت نہ فرماتے ‘ کیونکہ زانی کے علاوہ ہلال کے تخم سے بچہ کا ہونا بھی محتمل تھا صرف نفی حمل کی وجہ سے لعان کا جواز ہلال والی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ نے۔ عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرنے کا جو واقعہ بیان کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس وقت وہ حاملہ تھی اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ عجلانی نے صرف انکار حمل کیا تھا (اور زنا کا الزام قائم نہیں کیا تھا) بلکہ ابن سعد نے طبقات میں حضرت عبداللہ بن جعفر کی روایت سے عویمر کے حالات کے ذیل میں بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن جعفر نے فرمایا میرے سامنے کا واقعہ ہے میں موجود تھا جب کہ عویمر بن حارث عجلانی نے اپنی بیوی پر شریک بن سمحا سے زنا کرنے کا الزام قائم کیا تھا اور اس کے حمل کا بھی انکار کردیا تھا عورت حاملہ تھی رسول اللہ ﷺ نے دونوں میں لعان کرا دیا۔ میں نے خود دیکھا کہ منبر کے پاس کھڑے ہوئے دونوں لعان کر رہے تھے کچھ مدت کے بعد بچہ پیدا ہوا تو شریک بن سمحا سے وہ بہت زیادہ مشابہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بچے کا الحاق اس کی ماں سے کردیا۔ عویمر کو اس کے خاندان والے بہت ملامت کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ہم تو اس عورت کو نیک ہی جانتے ہیں لیکن جب بچہ شریک کا ہم شکل پیدا ہوا تو پھر لوگوں نے عویمر کو معذور سمجھا (یعنی ملامت کرنا چھوڑ دیا) بچہ دو سال زندہ رہ کر مرگیا اس کی ماں بھی اس کے کچھ دنوں بعد مرگئی اور شریک اس واقعہ کے بعد لوگوں کی نظر میں ذلیل ہوگیا۔ قصہ کی یہ تفصیل دلالت کر رہی ہے کہ عویمر نے عورت کے زنا کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا اور حمل کا بھی انکار کیا تھا۔ صاحبین کے قول کی دلیل یہ ہے کہ جب شوہر نے انکار حمل کردیا اور چھ ماہ سے کم میں بچہ پیدا ہوگیا تو اس سے ثابت ہوجائے گا کہ انکار کے وقت حمل موجود تھا لہٰذا قذف متحقق ہوگیا (اور حد قذف سے بچنے کے لئے) لعان کیا جائے گا۔ امام صاحب نے فرمایا حمل کا وجود بالفعل یقینی نہیں تو گویا انکار ولد مشروط ہوا اور مطلب یہ ہوا کہ اگر تو حاملہ ہو تو تیرا یہ حمل مجھ سے نہیں ہے اور قذف کو مشروط کرنا صحیح نہیں ہے۔ مسئلہ اگر شوہر نے یہ الفاظ کہے ‘ تو نے زنا کیا اور تیرا حمل زنا کا ہے تو بالاتفاق لعان کرنا ہوگا۔ کیونکہ صراحت کے ساتھ اس نے زنا کا ذکر کیا ہے اس صورت میں امام صاحب کے نزدیک حاکم نفی نسب کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ (یعنی یہ حکم نہیں دے گا کہ یہ بچہ تیرا نہیں ہے کسی اور کا ہے) امام شافعی (رح) : کا قول اس کے خلاف ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بچہ کا الحاق ہلال کے ساتھ نہ کرنے کا حکم دیا تھا اور ہلال نے جس وقت عورت پر الزام لگایا تھا اس وقت وہ حاملہ تھی۔ امام صاحب نے فرمایا احکام کا اجراء تو ولادت کے بعد ہوگا ‘ ولادت سے پہلے حمل کا یقین نہیں۔ باقی رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حمل کا موجود ہونا رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوگیا ہوگا (اس لئے آپ نے فوراً فیصلہ کردیا کہ بچہ کا الحاق ہلال سے نہ کیا جائے) ۔ میں کہتا ہوں امام صاحب کی یہ بات بعید از فہم ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ ظاہری امور کی بنیاد پر فیصلہ فرماتے تھے تاکہ مسلمان آپ ﷺ : کا اتباع کریں (پوشیدہ) وحی پر آپ کے فیصلہ کی بنا نہ تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ یہ نہ فرماتے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے بلکہ یقین کے ساتھ دونوں میں سے ایک کے متعلق فرما دیتے کہ تو جھوٹا یا تو جھوٹی ہے۔ مسئلہ اگر بچہ کے پیدا ہونے کے بعد شوہر اپنا بچہ ہونے کا انکار کر دے تو امام شافعی (رح) کے نزدیک اس کا انکار صحیح مانا جائے گا بشرطیکہ پیدا ہونے کی خبر سنتے ہی اس نے انکار کردیا ہو۔ اس صورت میں لعان کیا جائے گا اور گر خبر ولادت سنتے ہی کچھ نہیں کہا بعد کو انکار نسب کیا تو نسب ثابت مانا جائے گا (انکار صحیح نہ ہوگا) اور (قذف کی وجہ سے) لعان کرنا ہوگا۔ امام صاحب نے فرمایا مبارکباد کے وقت اس نے اگر انکار نسب کردیا تو انکار صحیح مانا جائے گا۔ (ظاہر روایت کے اعتبار سے) تعیین مدت کے سلسلہ میں امام صاحب کا قول نہیں آیا۔ ابواللیث کی روایت میں آیا ہے کہ امام صاحب نے تین روز کی مدت (انکار کے لئے) مانی ہے۔ حسن کی روایت میں سات روز کا لفظ آیا ہے۔ صاحبین کے نزدیک پوری مدت نفاس انکار کی مدت ہے ظاہر قیاس کا تقاضا ہے کہ فوراً ولادت کی خبر سن کر اگر انکار نسب کردیا ہو تو مانا جائے اور کچھ وقفہ خاموشی میں گزر گیا ہو تو پھر انکار کو صحیح نہ قرار دیا جائے کیونکہ (موقع ظہار میں) خاموشی رضامندی کی علامت ہے۔ لیکن دقیق قیاس (استحسان) کا فیصلہ ہے کہ اس کو سوچنے اور غور کرنے کی کچھ مدت ملنی چاہئے بغیر غور کئے اگر نکار نسب کر دے گا (اور واقع میں وہ بچہ اس کا ہوگا) تو یہ حرام ہے اور اگر دوسرے کا بچہ ہے اور اس کو وہ اپنا بچہ قرار دے لے گا تو یہ بھی حرام ہے (اپنے بچے کا باپ کسی دوسرے کو قرار دینا یا دوسرے بچے کا باپ اپنے کو ظاہر کرنا دونوں کبیرہ گناہ ہیں) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ : کا بیان ہے میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے جس عورت نے کسی دوسری قوم کے آدمی کو اپنی قوم میں شامل کیا (یعنی کسی دوسرے شخص سے زنا کر کے بچہ کو اپنے شوہر کا بتایا) وہ اللہ کی رحمت سے خارج ہوگئی اور اللہ قیامت کے دن اس کو جنت میں داخل نہیں فرمائے گا اور جس مرد نے دیدہ و دانستہ اپنے بچہ کا باپ ہونے سے انکار کردیا تو اللہ قیامت کے دن اس سے پردہ کرے گا (اللہ کا دیدار اسے میسر نہ ہوگا) اور اگلے پچھلوں کے سامنے اس کو رسوا کرے گا۔ رواہ ابو داؤد و النسائی والشافعی و ابن حبان والحاکم۔ دارقطنی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ صحیحین میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابوبکرہ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام (کے دور) میں کسی نے غیر باپ کو اپنا باپ قرار دیا اور وہ واقف بھی ہے کہ جس شخص کی طرف وہ اپنے باپ ہونے کی نسبت کر رہا ہے وہ اس کا باپ نہیں ہے تو جنت اس پر حرام ہے۔ مسئلہ اگر بچے کی پیدائش کے وقت مرد کہیں غائب تھا تو واپس آنے کے بعد کی مدت کا اعتبار کیا جائے گا۔ صاحبین کے نزدیک اتنی مدت غور کرنے کے لئے دی جائے گی جتنی مدت نفاس کی ہوتی ہے اور امام صاحب کے نزدیک مدت مبارکباد کی برابر مدت تامل کے لئے کافی ہے۔ مسئلہ اگر شوہر کو اپنی بیوی کے زنا کا یقین ہوگیا یا زید سے زنا کرنے کی خبر مشہور ہونے کی بنا پر پختہ گمان ہوگیا اور تائیدی قرینہ بھی موجود ہے (مثلاً ) شوہر نے زید کو اس عورت کے ساتھ تنہائی میں دیکھ لیاتو اس صورت میں وہ عورت پر زنا کا الزام قائم کرسکتا ہے یا اگر عورت کے کوئی بچہ پیدا ہوا اور اس نے بیوی سے قربت ہی نہیں کی اس لئے اس کو یقین ہوگیا کہ یہ بچہ مجھ سے نہیں ہے تو انکار ولدیت کرنا جائز ہے یا قربت تو کی تھی لیکن وقت قربت سے ابھی چھ مہینے گزرنے نہیں پائے تھے کہ بچہ ہوگیا یا دو سال گزرنے کے بعد بچہ پیدا ہوا ‘ ان سب صورتوں میں بچے سے انکار کردینا اس کے لئے جائز ہے ہاں اگر چھ ماہ سے اوپر دو سال کے اندر بچہ پیدا ہوا یا حیض نہ آنے کی وجہ سے استبراء رحم نہیں ہوا تو اس صورت میں بچہ کی ولدیت سے انکار ناجائز ہے اور حیض آنے کے وقت سے اگر چھ ماہ سے زیادہ عرصہ کے بعد بچہ پیدا ہوا تو بچہ کو اپنانے سے انکار جائز ہے۔ مسئلہ اگر جماع کیا یا عزل کیا یا عورت کے زنا کرنے کا اس کو (یقینی) علم ہوگیا اور اس بات کا احتمال ہے کہ بچہ اسی کا ہو یا زانی کا ہو تو اپنا بچہ ہونے کا انکار حرام ہے۔ واللہ اعلم۔
Top