Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 46
ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَیْنَا قَبْضًا یَّسِیْرًا
ثُمَّ : پھر قَبَضْنٰهُ : ہم نے سمیٹا اس کو اِلَيْنَا : اپنی طرف قَبْضًا : کھینچنا يَّسِيْرًا : آہستہ آہستہ
پھر اس کو ہم آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں
ثم قبضنہ الینا قبضا یسیرا۔ پھر ہم نے اس کو آسانی کے ساتھ (یا تھوڑا تھوڑا کر کے تدریجاً ) اپنی طرف سمیٹ لیا ‘ یعنی سورج کے نکلنے اٹھنے اور کرنوں کے پھیلنے سے سایہ جاتا رہتا ہے اور سایہ کی جگہ آفتاب کی شعاعیں لے لیتی ہیں اوّل تاریکی دھیرے دھیرے جاتی رہتی ہے یہاں تک کہ کامل اجالا ہوجاتا ہے پھر سورج نکل آتا ہے اور سورج کی شعاعیں ان مقامات پر پڑتی ہیں جہاں پہلے تاریکی ہوتی ہے۔ میرے نزدیک ان آیات کی تاویل دوسرے رنگ سے بھی کی جاسکتی ہے۔ ظل سے مراد عالم امکان ہے عالم امکان کا وجود ‘ خارجی ظلی ہے امکان مرتبۂ وجوب کا ظل ہے شمس سے مراد ہیں اللہ کی صفات و اسماء کے مراتب اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح عالم امکان کو ایجاد کیا اور اس کے وجود کو وجود واجب کا ظل ہے کس طرح ماہیات ممکنہ کی مختلف صورتوں پر پھیلا دیا اگر اللہ چاہتا تو سارے عالم امکان کے وجود کو ساکن مستقر اور ایک ہی حالت پر کردیتا مگر اس نے ایسا نہیں چاہا بلکہ اس کو محل حوادث اور تغیرات و فناء کی آماجگاہ بنا دیا تاکہ وہ ذات واجب الوجود حقیقی کا محتاج رہے اور اس کی امکانی احتیاج نمودار ہو پھر ہم نے آفتاب کو اس کے لئے راہنما بنایا ‘ یعنی جب اللہ کی صفات و اسماء کا جلوہ صوفی کے دل پر پڑتا ہے اور قلبی بصیرت کے ذریعہ اس کو وجودِ حق تعالیٰ کا مشاہدہ ہوتا ہے تو اس وقت اس پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ تمام عالم امکان وجودِ حق تعالیٰ کا ظل ہے تجلیات و مشاہدات سے پہلے وہ خیال کرتا ہے کہ عالم امکان کا بجائے خود کوئی وجود ہے لیکن صفاتی اور اسمائی نور پاشی کے بعد اس کا یہ خیال دور ہوجاتا ہے۔ پھر ہم اس کو دھیرے دھیرے سمیٹ لیتے ہیں یعنی صوفی کو رفتہ رفتہ اپنا مقرب بنا لیتے ہیں اور ہماری صفات و ذات کی بےکیف قربت اس کو حاصل ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کا فرمان نقل کیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ نوافل کے ذریعہ میرا بندہ میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ میرا محبوب ہوجاتا ہے اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔ الحدیث۔ صوفیاء کا قول ہے جس کے دونوں دن برابر (ایک جیسے) ہوں وہ گھاٹے میں رہتا ہے (یعنی جو دوسرے دن پہلے سے زیادہ عروج حاصل نہ کرے وہ خسارے میں ہے) ۔
Top