Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 68
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ١ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو لَا يَدْعُوْنَ : نہیں پکارتے مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا اٰخَرَ : کوئی معبود وَلَا يَقْتُلُوْنَ : اور وہ قتل نہیں کرتے النَّفْسَ : جان الَّتِيْ حَرَّمَ : جسے حرام کیا اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر جہاں حق ہو وَلَا يَزْنُوْنَ : اور وہ زنا نہیں کرتے وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ يَلْقَ اَثَامًا : وہ دو چار ہوگا بڑی سزا
اور وہ جو خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جن جاندار کو مار ڈالنا خدا نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق پر (یعنی شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے۔ اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا
والذین لا یدعون مع اللہ الہا اخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولا یزنون اور وہ لوگ جو کسی دوسرے معبود کو اللہ کے ساتھ نہیں پکارتے اور نہ بغیر حق کے کسی ایسے شخص کو قتل کرتے ہیں جس کو قتل کرنے کی اللہ نے ممانعت فرما دی ہے اور نہ زنا کرتے ہیں۔ بِالْحَقِّیعنی حق پر قتل کرتے ہیں مثلاً قصاص میں قتل کرتے ہیں یا (محصن کو) زنا کی سزا میں سنگسار کرتے ہیں وغیرہ ان آیات میں بنیادی گناہوں کی نفی کی گئی ہے اس سے اوپر اصول طاعات کا اثبات کیا گیا تھا اس نفی و اثبات سے مقصود ہے مؤمنوں کے کمال ایمانی کا اظہار اور اس بات پر تنبیہ کہ جس اجر کا وعدہ کیا گیا ہے وہ انہی مسلمانوں سے کیا گیا ہے جو اصول طاعت کے ساتھ متصف اور امہات معاصی سے مجتنب رہنے ہیں۔ درپردہ اس میں کافروں پر تعریض بھی ہے کہ وہ معاصی سے اجتناب نہیں کرتے اور اصول طاعت کو ادا نہیں کرتے ان کے اوصاف مؤمنوں کے اوصاف کے بالکل برعکس ہیں اسی لئے آئندہ آیت میں مرتکب معصیت کے عذاب میں مبتلا ہونے کی وعید بیان فرما دی ‘ اور ارشاد فرمایا۔ ومن یفعل ذلک یلق اثاما اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ گناہوں کی سزا پائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا گناہ سے مراد ہے گناہ کی سزا۔ ابو عبیدہ نے کہا اثام کا معنی ہے سزا۔ مجاہد نے کہا اثام جہنم کے اندر ایک وادی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے حدیث میں آیا ہے کہ غی اور اثام (جہنم کے اندر) دو کنویں ہیں جن کے اندر دوزخیوں کا لہو ‘ پیپ بہ کرجاتا ہے۔ میں کہتا ہوں ابن ابی حاتم نے اس آیت کی تشریح میں حضرت ابن عمر ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ اثام جہنم میں ایک وادی ہے ‘ ہناد نے سفیان کا بھی یہی قول بیان کیا ہے۔ ابن جریر ‘ طبرانی اور بیہقی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی پتھر جس کا وزن دس اوقیہ ہو جہنم کے کنارہ سے (اندر کی طرف) پھینکا جائے تو ستّر برس میں غی و اثام تک پہنچے گا۔ راوی کا بیان ہے میں نے عرض کیا غی اور اثام کیا ہیں ‘ فرمایا جہنم کی تلی میں دو نہریں ہیں جن کے اندر دوزخیوں کا کچ ‘ لہو بہ کرجاتا ہے انہی دونوں کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں کیا ہے اور فرمایا ہے۔ فَسَوْفَ یّلْقُوْنَ غَیًّا۔ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلکَ یَلْقَ اَثَامًا۔
Top