Tafseer-e-Mazhari - Ash-Shu'araa : 219
وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ
وَتَقَلُّبَكَ : اور تمہارا پھرنا فِي : میں السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے (نمازی)
اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی
وتقبلک فی السجدین ۔ اور (نماز شروع ہونے کے بعد) نمازیوں کے ساتھ آپ کی نشست برخاست کو بھی دیکھتا ہے۔ تَقَلُّبَکَ یعنی نماز کے اندر قیام اور رکوع اور سجود اور قعود کی طرف تمہارے منتقل ہونے کو۔ فِی الساجدین یعنی فی المصلمین حسب روایت عطیہ و عکرمہ حضرت ابن عباس کا یہی تفسیری قول ہے مقاتل نے کہا فی المصلین یعنی مع المصلین مطلب یہ ہے کہ اللہ تم کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب تم تنہا نماز پڑھتے ہو اور اس وقت بھی دیکھتا ہے جب نمازیوں کے ساتھ جماعت کی نماز پڑھتے ہو۔ مجاہد نے کہا مطلب یہ ہے کہ تم جو نمازیوں کی طرف نظر گھماتے پھراتے ہو اللہ اس کو دیکھتا ہے بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس طرح سامنے سے دیکھتے تھے اسی طرح پشت کے پیچھے کی چیز کو بھی دیکھتے تھے (تو نماز کے اندر نظر نبوت سے مقتدیوں کے حال کا بھی مشاہدہ کرلیتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم میرا رخ یہاں (یعنی سامنے کی طرف) دیکھتے ہو واللہ تمہارے خضوع کی حالت مجھ سے پوشیدہ نہیں ہوتی میں تمہیں بلاشبہ اپنی پشت کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں رواہ البغوی۔ حسن نے کہا تقلب سے مراد ہے تصرف یعنی مؤمنوں میں تمہاری آمدورفت کو اللہ دیکھتا ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا ساجدین سے مراد ہیں انبیاء یعنی جیسے انبیاء کے حالات تھے وہ چلتے پھرتے اور مختلف احوال رکھتے تھے اسی طرح مختلف احوال میں تمہارے تصرف کو بھی خدا دیکھتا ہے بعض اہل علم نے یہ بیان کیا کہ تہجد گزاروں کے احوال کو تلاش کرنے کے لئے جو تم آتے جاتے ہو اللہ اس کو دیکھتا ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے روایت میں آیا ہے کہ جب شب کی نماز کی فرضیت منسوخ کردی گئی تو اسی رات کو رسول اللہ ﷺ اپنے مکان سے برآمد ہو کر صحابہ کے مکانوں کی طرف تشریف لے گئے تاکہ یہ معلوم کرسکیں کہ صحابہ رات کو گھروں کے اندر کیا کرتے ہیں کیونکہ آپ کو صحابہ کا عبادت میں مشغول ہونا بہت زیادہ مرغوب تھا۔ صحابہ کو ذکر خدا اور تلاوت میں مشغول پایا ان کی آوازوں میں بھن بھناہٹ بھڑوں (یا شہد کی مکھیوں) بھن بھناہٹ کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے احوال خاص بہت تھے یہاں صرف آپ کے تقلب فی الصحابہ کا ذکر اس لئے کیا کہ آپ کا یہ عمل رحمت کا سبب تھا۔ عطا کی روایت میں حضرت ابن عباس کا ایک قول آیا ہے کہ تقلب سے مراد ہے آباء و اجداد کی پشتوں میں منتقل ہونا یعنی ایک نبی سے نور محمدی کا دوسرے نبی کی پشت میں منتقل ہو کر آنا۔ لیکن اس تفسیر پر رسول اللہ ﷺ کی کوئی خاص مدح نہ ہوگی کیونکہ آباء و اجداد میں ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہونا تو صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے لئے مخصوص نہ تھا تمام قریش بلکہ تمام انسان یونہی پشت در پشت منتقل ہوتے چلے آئے ہیں۔ زیادہ مناسب یہ ہے کہ تقلب سے مراد ہو پاک عبادت گزار مردوں کی پشت سے مقدس پاک دامن عورتوں کے رحموں میں آپ کا منتقل ہوتے رہنا یعنی موحد ‘ مؤمن مردوں کی پشتوں سے مؤمن ‘ موحد عورتوں کے رحموں کی طرف انتقال۔ اس تفسیر سے آیت پر استدلال کیا جاسکے گا اس امر پر کہ حضور کے سارے آباء و اجداد مؤمن تھے۔ کذا قال السیوطی۔ حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی کے شعر ہیں۔ وَیَنْقُلَ اَحَدٌ نورًا عظیمًا تَلاَأُافَی وَجُوہ السَّاجدِینَ تَقَلَّبَ فِیْہِمْ قَرْنَاَ فَقَرْنًا اِلٰی اَنْ جَاءَ خَیْرُ الْمُرسَلِیْنَ ہر ایک نور عظیم منتقل کرتا رہا جو موحدوں کے چہروں میں جگمگاتا رہا وہ نور ہر زمانہ میں منتقل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ سید المرسلین پیدا ہوگئے۔ اس تفسیر کی تائید صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے قرن در قرن (منتقل کر کے) بنی آدم کے بہترین قرن میں بھیجا گیا یہاں تک کہ میری بعثت اس زمانہ میں ہوگئی۔ جس میں میں ہوں۔ مسلم نے حضرت واثلہ بن اسقع کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ نے اولاد ابراہیم میں سے اسماعیل کا انتخاب کرلیا اور اولاد اسماعیل میں سے بنی کنانہ کا اور بنی کنانہ میں سے قریش کا اور قریش میں سے بنی ہاشم کا اور بنی ہاشم میں سے مجھے چن لیا۔ بیہقی نے دلائل النبوت میں حضرت انس کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے حضور ﷺ نے فرمایا جب بھی اللہ نے آدمیوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا تو مجھے بہترین فرقہ میں سے کردیا آخر مجھے میرے والدین سے پیدا کردیا گیا کہ دور جاہلیت کی کوئی خرابی مجھے نہیں پہنچی بنی آدم سے لے کر اپنے والدین تک میں نکاح سے پیدا ہوا زنا سے نہیں۔ پس میں ذاتی حیثیت میں بھی تم سے بہتر ہوں اور نسبی اعتبار سے بھی افضل ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کے آباء و اجداد کے مؤمن ہونے کے موضوع پر مجمل اور مفصل ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں مثبت اور منفی ہر طرح کی بحث کی ہے میں نے اس کا خلاصہ ایک رسالہ کی شکل میں لکھ دیا ہے اس موضوع کی تنقیح کے لئے اس رسالہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
Top