Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 22
فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ
فَمَكَثَ : سو اس نے دیر کی غَيْرَ بَعِيْدٍ : تھوڑی سی فَقَالَ : پھر کہا اَحَطْتُّ : میں نے معلوم کیا ہے بِمَا : وہ جو لَمْ تُحِطْ بِهٖ : تم کو معلوم نہیں وہ وَجِئْتُكَ : اور میں تمہارے پاس لایا ہوں مِنْ : سے سَبَاٍ : سبا بِنَبَاٍ : ایک خبر يَّقِيْنٍ : یقینی
ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ہُدہُد آ موجود ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک ایسی چیز معلوم ہوئی ہے جس کی آپ کو خبر نہیں اور میں آپ کے پاس (شہر) سبا سے ایک سچی خبر لے کر آیا ہوں
فمکث غیر بعید . اس کے بعد سلیمان ( علیہ السلام) (زیادہ دیر نہیں ٹھہرے یا) تھوڑی دیر ہی ٹھہرے تھے۔ غَیْرَ بَعِیْدٍ یعنی لمبا توقف نہیں کیا تھا یا دراز مدت تک نہیں ٹھہرے تھے۔ مطلب یہ کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے خوف سے ہدہد جلد واپس آگیا۔ ہدہد کی غیرحاضری کا سبب علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ حصرت سلیمان ( علیہ السلام) بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہو کر حرم (کعبہ) کو چلے گئے اور اللہ کی مشیت جتنی تھی اس کے مطابق وہاں قیام پذیر رہے۔ جب تک مکہ میں رہے روزانہ پانچ ہزار اونٹنیاں ‘ پانچ ہزار بیل اور بیس ہزار مینڈھے ذبح کرتے رہے۔ آپ نے اپنی قوم کے سرداروں سے فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے نبی عربی ﷺ جن کے اوصاف یہ یہ ہوں گے برآمد ہوں گے ‘ ان کو مخالفین پر فتح یاب کیا جائے گا ‘ ان کا رعب ایک ماہ کی مسافت تک پڑے گا ‘ نزدیک اور دوران کے لئے برابر ہوگا ‘ اللہ کے معامہ وہ کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔ حاضرین نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ! ان کا دین کیا ہوگا ؟ فرمایا : وہ دین توحید (دین حنیف یعنی دین ابراہیمی) پر چلیں گے۔ خوشی ہو اس کے لئے جو ان کو پالے اور ان پر ایمان لائے۔ حاضرین نے دریافت کیا : ان کی بعثت میں کتنی مدت باقی ہے۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا : ایک ہزار۔ حاضرین کو چاہئے کہ وہ یہ بات ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں حاضر نہیں ہیں۔ بیشک وہ انبیاء کے سردار اور خاتم المرسلین ہوں گے۔ راوی کا بیان ہے : حضرت سلیمان ( علیہ السلام) مکہ میں قیام پذیر رہے۔ جب حج پورا کرلیا تو مکہ سے نکلے اور صبح کو مکہ سے روانہ ہو کر یمن کی طرف چل دئیے۔ صنعاء میں زوال کے وقت پہنچ گئے۔ یہ مسافت ایک ماہ کی راہ تھی ‘ صنعاء کی زمین کو خوبصورت اور سرسبز پایا۔ آپ نے وہاں اترنے کو پسند کیا تاکہ کھانے اور نماز سے فراغت حاصل کرلیں۔ ہدہد نے سوچا کہ سلیمان ( علیہ السلام) تو اترنے میں لگے ہوئے ہیں اتنے میں آسمان کی طرف اڑ کر زمین کی لمبائی چوڑائی دیکھ لوں۔ چناچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اوپر جا کر دائیں بائیں نظر دوڑائی تو بلقیس کا ایک باغ نظر آیا۔ ہدہد سبزے کی طرف چل دیا اور باغ میں اتر گیا وہاں ایک اور ہدہد سے ملاقات ہوگئی۔ ہدہد سلیمان ( علیہ السلام) اس کے پاس اتر کر پہنچ گیا۔ ہدہد سلیمان ( علیہ السلام) کا نام یعفور اور ہدہد یمن کا نام عنفیر تھا۔ عنفیر نے یعفور سے پوچھا : کہاں سے آئے ہو اور کہاں کا ارادہ ہے ؟ یعفور نے کہا : میں اپنے مالک سلیمان بن داؤد کے ساتھ شام سے آیا ہوں۔ عنفیر نے پوچھا : سلیمان کون ہے ؟ یعفور نے کہا : وہ جن و انس اور شیطانوں ‘ وحشی جانوروں ‘ پرندوں اور ہواؤں کے بادشاہ ہیں (ان کا حکم سب پر چلتا ہے) تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ عنفیر نے کہا : اسی ملک کا باشندہ ہوں۔ یعفور نے پوچھا : اس ملک کا بادشاہ کون ہے ؟ عنفیر نے کہا : یہاں کی بادشاہ ایک عورت ہے جس کو بلقیس کہا جاتا ہے۔ بیشک تمہارے آقا کا ملک بڑا ہے لیکن بلقیس کا ملک بھی کم نہیں ہے وہ یمن کی ملکہ ہے ‘ اس کے زیر حکم بارہ ہزار جنرل ہیں اور ہر جنرل کے ماتحت ایک لاکھ جنگی سپاہی ہیں۔ کیا تم میرے ساتھ چل کر اس کی حکومت دیکھنا چاہتے ہو ؟ یعفور نے کہا : مجھے یہ ڈر لگا ہوا ہے کہ نماز کے وقت سلیمان ( علیہ السلام) کو پانی کی ضرورت ہوگی اور مجھے تلاش کریں گے۔ عنفیر نے کہا : تمہارا مالک اس بات سے خوش ہوگا کہ تم اس کو اس ملکہ کی خبر بتاؤ گے۔ عفور نے عنفیر کے ساتھ بلقیس کو اور اس کی حکومت کو دیکھا اور سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس عصر کے وقت سے پہلے نہ پہنچ سکا۔ ادھر جب سلیمان ( علیہ السلام) اتر پڑے تو اس جگہ پانی نہ تھا ‘ نماز کا وقت آگیا اور پانی کی ضرورت ہوئی تو پانی نہیں ملا۔ آپ نے جنات سے آدمیوں سے اور شیاطین سے پانی کے متعلق دریافت کیا لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ پانی کہاں ہے۔ پرندوں کی تلاش کی تو ہدہد کو غیرحاضر پایا۔ پرندوں کے عریف (مانیٹر ‘ سردار ‘ ناظم) یعنی گدھ کو طلب فرمایا اور ہدہد کے متعلق اس سے پوچھا۔ گدھ نے کہا : مجھے معلوم نہیں وہ کہاں ہے۔ میں نے تو اس کو کہیں بھیجا نہیں ہے۔ اس وقت حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو غصہ آگیا اور فرمایا : لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْلَأَذْبَحَنَّہٗ اَوْلَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ پھر پرندوں کے سردار عقاب کو بلوایا اور حکم دیا کہ ابھی ہدہد کو پکڑ لاؤ۔ عقاب فوراً اڑا اور آسمان کے نیچے ہوا کے ساتھ چسپاں ہوگیا۔ وہاں سے اس کو یہ دنیا ایک پیالہ کی طرح نظر آئی پھر ادھر ادھر نظر دوائی تو یمن کی طرف سے ہدہد بھی آتا دکھائی دیا۔ عقاب اس پر ٹوٹ پڑا۔ ہدہد نے عقاب کو پر توڑ کر اپنی طرف آتا دیکھا تو سمجھ گیا کہ عقاب کا ارادہ میرے متعلق برا ہے۔ ہدہد نے اس کو قسم دی اور کہا میں تجھے اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے تجھے طاقت عطا کی ہے اور مجھ پر قدرت دی ہے۔ تو مجھ پر رحم کر اور کوئی دکھ پہنچانے کے درپے نہ ہو۔ عقاب ہدہد کی طرف سے پلٹ گیا۔ کم بخت تو مرے ‘ اللہ کے پیغمبر نے قسم کھائی ہ یکہ وہ تجھے عذاب دیں گے یا ذبح کر ڈالیں گے۔ اس کے بعد دونوں نے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی طرف رخ کردیا۔ جب لشکر تک پہنچے تو گدھ اور دوسرے پرندوں نے جا لیا اور کہا : ارے ! آج تو دن بھر کہاں غائب رہا۔ اللہ کے پیغمبر نے تیرے متعلق یہ یہ کہا تھا۔ ہدہد نے کہا : کیا انہوں نے (اپنی قسم میں) کوئی شرط بھی لگائی تھی ؟ پرندوں نے کہا : ہا آ یہ بھی فرمایا تھا : اَوْلَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ۔ ہدہد نے کہا : بس تو میں عذاب سے بچ گیا۔ پھر عقاب اور ہدہد اڑ کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچے آپ اس وقت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ عقاب نے کہا : یا نبی اللہ ! میں اس کو لے آیا۔ ہدہد نے سلیمان ( علیہ السلام) کو دیکھ کر اظہار عاجزی کے طور پر اپنا سر اٹھایا ‘ دم اور دونوں باز نیچے کو لٹکا دئیے اور زمین پر ان کو کھینچنے لگا۔ جب آپ کے قریب پہنچ گیا تو آپ نے اس کا سر پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرمایا : تو کہاں تھا ؟ میں تجھے ضرور سخت عذاب دوں گا۔ ہدہد نے کہا : یا نبی اللہ ! اس وقت کو یاد کیجئے جب آپ اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ یہ بات سن کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) لرز گئے اور ہدہد کو معاف کردیا۔ پھر غیرحاضری کی وجہ دریافت کی۔ فقال احطت بما لم تحط بہ . (کہ ہدہد آگیا) اور اس نے کہا : میں ایسی بات پوری پوری معلوم کر کے آیا ہوں جو آپ کو معلوم نہیں۔ اِحَاطَتہ کسی چیز کا ہمہ جہتی (پور اپورا) علم۔ اللہ کے سوا دوسروں کے علم کے لئے اس کا استعمال یا بطور مجاز ہوتا یا بطریق مبالغہ۔ مطلب یہ ہے کہ مجھے ایک بات یقینی طور پر معلوم ہوئی جو آپ کے علم میں نہیں ہے۔ ایک ہدہد کا ایک جلیل القدر نبی سے اس طرح خطاب کرنا بتارہا ہے کہ ادنیٰ جانور کو بھی بعض وہ باتیں معلوم تھیں جو سلیمان ( علیہ السلام) کو بھی نہ تھیں۔ اس میں تنبیہہ ہے اس امر پر کہ سلیمان کو اپنے علم پر ناز نہ کرنا چاہئے بلکہ سمجھ لینا چاہئے کہ میرا علم بہت ہی ناقص ہے۔ اس سے شیعہ فرقہ کا اس عقیدہ کا غلط ہونا ثابت ہوتا ہے کہ امام سے کوئی بات چھپی نہیں رہتی اور اس کے زمانہ میں کوئی بھی اس سے زیادہ اور بڑھ کر عالم نہیں ہوتا۔ وجئتک من سبابنبا یقین . اور میں آپ کے پاس سبا کی ایک تحقیقی خبر لایا ہوں۔ سبا یمن کے ایک شہر کا نام ہے جس کا صنعاء سے فاصلہ تین برید ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سبا کے متعلق دریافت کیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : سبا ایک آدمی تھا جس کے دس بیٹے تھے جن سے چھ دائیں سمت کو چلے گئے اور چار بائیں رخ کو۔ یعنی چھ نے دائیں طرف جا کر آبادی کرلی ‘ یہ ملک یمن ہوگیا اور چار بائیں جانب جا کر آباد ہوگئے ‘ یہ آبادی شام کے نام سے موسوم ہوئی۔ بِنَبَاٍیَّقِیْنٍ تحقیقی خبر۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے واقعہ دریافت کیا تو ہدہد نے کہا۔
Top