Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 23
اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَ اُوْتِیَتْ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ
اِنِّىْ : بیشک میں نے وَجَدْتُّ : پایا (دیکھا) امْرَاَةً : ایک عورت تَمْلِكُهُمْ : وہ ان پا بادشاہت کرتی ہے وَاُوْتِيَتْ : اور دی گئی ہے مِنْ كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے وَّ لَهَا : اور اسکے لیے عَرْشٌ : ایک تخت عَظِيْمٌ : بڑا
میں نے ایک عورت دیکھی کہ ان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے اور ہر چیز اسے میسر ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے
انی وجدت امراۃ تملکھم . میں نے ایک ایسی عورت پائی جو سبا والوں پر حکمرانی کرتی ہے (یعنی انکی ملکہ ہے) ملکہ سبا کا نام بلقیس بن شراحیل تھا ‘ وہ یعرب بن قحطان کی نسل سے تھی۔ اس کا باپ بہت بڑا بادشاہ تھا جس کے 39 آباؤ اجداد بادشاہ ہو کر گزر تھے ‘ وہ خود چالیسواں تھا۔ ملک یمن پر حکومت کرتا تھا اور سرحدی ہمسرانہ بادشاہوں میں سے کسی کو اپنا ہمسر نہیں جانتا تھا اسی لئے اس نے ہر بادشاہ کی بیٹی سے نکاح کرنے سے انکار کردیا تھا۔ آخر اس کا نکاح (خاندان جنات میں) ایک پری سے ہوگیا جس کا نام ریحا نہ بنت سکن تھا۔ اس پری کے پیٹ سے بلقیس بنت شراحیل پیدا ہوئی۔ سوائے بلقیس کے شراحیل کا کوئی اور بچہ نہیں ہوا۔ حدیث میں آیا ہے کہ بلقیس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک جنات میں سے تھا (مترجم کو یہ حدیث کہیں نہیں ملتی۔ یا حدیث سے مراد ہے قصہ یعنی بلقیس کے قصہ میں یہ بات آئی ہے کہ بلقیس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک ازقوم جن تھا۔ واللہ اعلم) ۔ باپ کے مرنے کے بعد بلقیس نے ملکہ بننے کی خواہش کی اور اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ قوم میں سے کچھ لوگوں نے مان لیا اور کچھ نے مخالفت کی۔ مخالفین نے ایک اور شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیا ‘ قوم دو فرقوں میں بٹ گئی۔ یمن کی مملکت کے بھی دو ٹکڑے ہوگئے۔ جس مرد کو بادشاہ بنایا گیا تھا اس نے لوگوں سے بہت برا سلوک کیا۔ رعیت کی عورتوں پر دست درازی کرنے لگا۔ لوگوں نے اس کو معزول کرنا چاہا لیکن اس کی طاقت زیادہ تھی کچھ بس نہ چلا۔ بلقیس نے جب عورتوں کی یہ بےحرمتی دیکھی تو اس کو غیرت آئی اور اس نے اس ظالم بادشاہ کے پاس ازخود تحریر بھیجی اور خواہش کی کہ تم مجھ سے نکاح کرلو (تاکہ دونوں حکومتیں ایک ہوجائیں اور قومی نفاق مٹ جائے) بادشاہ نے جواب لکھا : مجھے تمہاری طرف سے امید نہ تھی کہ تم میرے پیام نکاح کو قبول کرلو گی اسی لئے میں نے اپنی طرف سے نکاح کی تحریک نہیں کی۔ بلقیس نے کہا : مجھے کوئی عذر نہیں۔ تم میرے کفو اور شریف ہو ‘ اب میری قوم والوں کو جمع کر کے ان کے سامنے مجھ سے نکاح کرنے کی دراخوست رکھو۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو جمع کیا اور سب کو نکاح کا پیام دیا۔ لوگوں نے کہا : ہمارے خیال میں تو بلقیس راضی نہیں ہوگی۔ بادشاہ نے کہا : ابتدائی تحریک خود اس کی طرف سے ہوچکی ہے۔ میں آپ لوگوں سے یہ چاہتا ہوں کہ اس کی زبان سے تم خود اس کا اقرار سن لو۔ قوم والوں نے آکر بلقیس سے اس کا ذکر کیا۔ بلقیس نے کہا : ہاں مجھے اولاد کی تمنا ہے۔ غرض لوگوں نے بلقیس کا نکاح بادشاہ سے کردیا۔ بلقیس وداع ہو کرگئی تو اپنی بہت سی فوج کو (جلوس) لیتی گئی اور بادشاہ کے پاس پہنچی تو اس کو اتنی شراب پلائی کہ وہ بےہوش ہوگیا پھر اس کا سر کاٹ کر رات ہی کو اپنے گھر واپس آگئی۔ صبح ہوئی اور لوگوں نے بادشاہ کو مقتول اور سر دروازہ پر لٹکا ہوا پایا تو سمجھ لیا کہ یہ نکاح ایک فریب و مکر تھا۔ اس کے بعد سب لوگوں نے بالاتفاق بلقیس کو ملکہ مان لیا۔ حضرت ابوبکر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب اطلاع ملی کہ فارس والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنی ملکہ بنا لیا ہے تو فرمایا : وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس نے ایک عورت کو اپنے امر کا والی (یعنی اپنی ملکہ) بنا لیا ہو۔ رواہ البخاری فی الصحیح واحمد والترمذی والنسائی۔ واوتیت من کل شیء . اور اس کو ہر چیز دی گئی ہے۔ یعنی اسلحہ ‘ ساز و سامان وغیرہ جس کی بادشاہوں کو ضرورت ہوتی ہے وہ سب کچھ اس کے پاس ہے۔ یا کُلِّ شَیْئٍ سے مراد محض کثرت ہے (یعنی لشکر کی عددی کثرت ملک کی وسعت ‘ مال کی فراوانی وغیرہ) ۔ ولھا عرش عظیم . اور اس کا تخت عظیم ہے۔ یعنی حجم میں بڑا سونے کا بنا ہوا ‘ یاقوت سرخ ‘ زبرجد سبز اور موتیوں سے مرصع ‘ جس کے پائے یاقوت و زمرد کے تھے۔ اس کے اوپر سات کمرے تھے اور ہر کمرہ کا دروازہ علیحدہ تھا جو بند رہتا تھا۔ ابن ابی حاتم نے زبیر بن محمد کے حوالہ سے بیان کیا کہ وہ تخت سونے کا تھا جس کے دونوں پہلو یاقوت و زبرجد سے مرصع تھے۔ اس کا طول 80 ہاتھ اور عرض 40 ہاتھ تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : بلقیس کا تخت تیس ہاتھ لمبا ‘ تیس ہاتھ چوڑا تھا۔ مقاتل نے کہا : طول اسی ہاتھ تھا اور اونچائی تیس ہاتھ۔
Top