Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 24
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ١ۖ۫ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ١ؕ وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ
قَالَ : کہا الَّذِيْ : اس نے جو عِنْدَهٗ : اس کے پاس عِلْمٌ : علم مِّنَ : سے۔ کا الْكِتٰبِ : کتاب اَنَا : میں اٰتِيْكَ بِهٖ : میں اس کو تمہارے پاس لے آؤں گا قَبْلَ : قبل اَنْ يَّرْتَدَّ : کہ پھر آئے اِلَيْكَ : تمہاری طرف طَرْفُكَ : تمہاری نگاہ (پلک جھپکے) فَلَمَّا رَاٰهُ : پس جب سلیمان نے اس دیکھا مُسْتَقِرًّا : رکھا ہوا عِنْدَهٗ : اپنے پاس قَالَ : اس نے کہا ھٰذَا : یہ مِنْ : سے فَضْلِ رَبِّيْ : میرے رب کا فضل لِيَبْلُوَنِيْٓ : تاکہ مجھے آزمائے ءَاَشْكُرُ : آیا میں شکر کرتا ہوں اَمْ اَكْفُرُ : یا ناشکری کرتا ہوں وَمَنْ : اور جس شَكَرَ : شکر کیا فَاِنَّمَا : تو پس وہ يَشْكُرُ : شکر کرتا ہے لِنَفْسِهٖ : اپنی ذات کے لیے وَمَنْ : اور جس كَفَرَ : ناشکری کی فَاِنَّ : تو بیشک رَبِّيْ : میرا رب غَنِيٌّ : بےنیاز كَرِيْمٌ : کرم کرنیوالا
ایک شخص جس کو کتاب الہیٰ کا علم تھا کہنے لگا کہ میں آپ کی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کئے دیتا ہوں۔ جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار بےپروا (اور) کرم کرنے والا ہے
قال الذی عندہ علم من الکتب . کہا : اس نے جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا۔ ابن ابی حاتم نے ابن لبیعہ کا قول نقل کیا ہے کہ وہ خضر تھے۔ بعض نے کہا : جبرئیل ( علیہ السلام) (بصورت انسانی۔ مترجم) تھے۔ کسی نے کہا : کوئی اور فرشتہ تھا۔ اکثر مفسرین نے صراحت کی ہے کہ وہ آصف بن برخیا تھے جو صدیقیت کے مرتبہ پر فائز تھے۔ اللہ کا اسم اعظم ان کو معلوم تھا ‘ جب اسم اعظم لے کر اللہ سے دعا کرتے تھے تو اللہ ان کی دعا قبول فرما لیتا تھا اور ان کا سوال پور اکر دیتا تھا۔ جریر اور مقاتل نے بوساطت ضحاک حضرت ابن عباس ؓ کی طرف اس بیان کی نسبت کی ہے کہ آصف نے نماز کے بعد حضرت سلیمان ( علیہ السلام) سے کہا : جہاں تک آپ کی نظر پہنچے اپنی آنکھیں اٹھا کر دیکھئے۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے نظر اٹھا کر یمن کی طرف دیکھا اور آصف نے دعا کی ‘ فوراً اللہ نے فرشتوں کو بھیج دیا۔ فرشتوں نے تخت اٹھا لیا اور زمین کو اندر ہی اندر چیرتے ہوئے لا کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے سامنے رکھ دیا۔ کلبی نے کہا : آصف نے سجدہ میں گر کر اللہ کا اسم اعظم پڑھ کر دعا کی ‘ فوراً بلقیس کا تخت زمین کے اندر ہی اندر چل دیا یہاں تک کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی کرسی کے پاس برآمد ہوگیا۔ بعض اہل روایت کا کہنا ہے : یہ مسافت دو مہینے کی راہ کے برابر تھی۔ آصف نے کیا دعا مانگی تھی ‘ علماء کا اس کی تعیین میں اختلاف ہے۔ مجاہد نے کہا : یَا ذَا الجَلالِ وَالاِکرَام کہا تھا یعنی یہ اسم اعظم ہے۔ کلبی نے کہا : یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ (یہی اسم اعظم ہے) حضرت عائشہ ؓ کا بھی یہی قول ہے۔ زہری کا قول مروی ہے کہ جس کے پاس علم کتاب تھا اس نے اس طرح دعا کی تھی : یَا اِلٰھنا وَاِلٰہ کُلِّ شَیئ اِلٰھًا واحِدًا لا الہ الاَّ اَنتَ اِیْتِنِی بِعَرشِھا اے ہمارے معبود اور ہر چیز کے تنہا معبود ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ میرے پاس اس کا تخت لے آ۔ اللہ کے اسم اعظم کی بحث ہم نے سورة آل عمران کے شروع میں تفصیل کے ساتھ لکھ دی ہے۔ میرے نزدیک زہری کا قول قابل ترجیح ہے۔ محمد بن مکندر نے کہا : اَلَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ سے خود حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی ذات مراد ہے۔ اللہ نے آپ کو علم و فہم عطا فرمایا تھا اس جگہ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَاب کہنا علم کی عظمت اور اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ سلیمان ( علیہ السلام) کو جو عزت و کرامت حاصل ہوئی تھی وہ علم ہی کے سبب تھی۔ رہا آئندہ آیت میں خطاب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک . میں تیرے پلک جھپکنے سے پہلے اسکو تیرے پاس لے آؤنگا تو یہ خطاب عفریت کو ہے اور اظہار معجزہ کی غرض سے ہے۔ عفریت نے تخت لانے کا جو وعدہ کیا تھا حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے اس مدت کو طویل سمجھا اور ایسے معجزہ کا اظہار کرنا چاہا جس سے بڑے بڑے دیو بھی عاجز تھے ‘ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اس صورت میں اَلْکِتَاب میں الف لام جنسی ہوگا اللہ کی بھیجی ہوئی ہر کتاب اس میں داخل ہوگی یا اس سے مراد لوح محفوظ ہوگی (اس وقت الف لام عہدی ہوگا) ۔ طَرْفٌ کا معنی ہے دیکھنے کے لئے پلک بلانا۔ دیکھنے والے کو کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک جانب کو اپنی پلکوں کی حرکت متوجہ کردی اس لئے اس کے مقابل رَدُّالْطَّرف آتا ہے یعنی پلکوں کی روانگی کو واپس لے لیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم کسی چیز پر آنکھیں کھول کر نظر دوڑاؤ پھر دیکھ کر نظر کو واپس لے آؤ تو نظر کی اس واپسی سے پہلے ہی میں تخت کو لے آؤں گا یعنی انتہائی جلدی۔ فلما راہ مستقرا عندہ قال ھذا من فضل ربی لیبلونیء اشکرام اکفر . اس کے بعد فوراً سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا دیکھا تو کہا : یہ میرے رب کی ادنیٰ عنایت ہے۔ وہ میری جانچ کر رہا ہے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں۔ اس کلام سے پہلے کچھ عبارت محذوف ہے (جس پر کلام کی رفتار دلالت کر رہی ہے) پوری عبارت اس طرح تھی ” سلیمان ( علیہ السلام) نے اس کو تخت لانے کا حکم دیا ‘ انہوں نے اللہ کا اسم اعظم پڑھ کر دعا کی۔ تخت میں حرکت ہوئی اور زمین کے اندر ہی اندر وہ آکر سلیمان ( علیہ السلام) کے تخت کے پاس برآمد ہوگیا “۔ سلیمان ( علیہ السلام) نے جو اتنی جلدی اس کو اپنے پاس رکھا دیکھا تو کہا۔ قال یعنی شکر نعمت کے طور پر کہا۔ اللہ کے مخلص بندوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ ھذا یعنی ساٹھ منزل دور سے پلک جھپکتے ہی تخت منگوا لینے کی قدرت مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ یعنی میرے رب کی مہربانیوں کا کچھ حصہ ہے۔ مِنْ تبعیضیہ ہے لِیَبْلُوَنِیْ یعنی اس کا یہ فضل مجھ پر میری جانچ کرنے کے لئے ہے۔ ءَ أَشْکُرُ کہ کیا میں اس کی نعمت کا شکر کرتا ہوں اور محض اس کی مہربانی سمجھتا ہوں ‘ اپنی طاقت اور قوت کا نتیجہ نہیں قرار دیتا اور پھر اس عطیۂ خداوندی کا حق ادا کرتا ہوں۔ اَمْ اَکْفُرُ یا ناشکری کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو اس کا مستحق قرار دیتا ہوں یا اس کا حق ادا کرنے میں قصور کرتا ہوں۔ ومن شکر فانما یشکر لنفسہ ومن کفر فان ربی غنی کریم . اور جو شکر کرے وہ اپنے فائدے کے لئے کرے گا اور جو ناشکری کرے گا تو میرا رب (اس کے شکر سے) بےنیاز ہے اور (بہرحال) کریم ہے۔ یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ شکر سے موجودہ نعمت کا بقاء اور مزید نعمت کا حصول ہوتا ہے۔ اَلشُّکرُ قَیدٌ النعمَۃِ المَوجُودۃِ وَصَید النعَمَۃِ المفقُودَۃِ شکر موجود نعمت کو روک رکھتا ہے اور غیر موجود نعمت کا شکر کرتا ہے (یعنی زیادت نعمت کا ذریعہ ہے) شکر کرنے سے صاحب نعمت کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے ‘ وہ حق واجب ادا کردیتا ہے اور اس کا درجہ عنداللہ اونچا ہوجاتا ہے اور آخرت میں ثواب کا استحقاق پیدا ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کھانے والا شکر ادا کرنے والا (یعنی کھا کر شکر ادا کرنے والا) صابر روزہ دار کی مثل ہے۔ رواہ احمد والترمذی و ابن ماجہ و الحاکم بسند صحیح عند ابی ہریرہ۔ امام احمد اور ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت سنان بن سنہ کی روایت سے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے : کھانے والے (پھر اس کا) شکر کرنے والے کے لئے اتنا ہی اجر ہے جیسے صابر روزہ دار کا۔ عَنِیٌ یعنی اس کے شکر سے بےپرواہ ہے ‘ کریم یعنی شاکر اور کافر سب کو دیتا ہے۔
Top