Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور تم کیونکر کفر کرو گے جبکہ تم کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اس کے پیغمبر موجود ہیں اور جس نے خدا (کی ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے رستے لگ گیا
و کیف تکفرون و انتم تتلی علیکم ایٰت اللہ نازل ہوئی کیف استفہامیہ تعجب و انکار کے لیے ہے یعنی تعجب ہے کہ تم اعمال کفر کی طرف جا رہے ہو حالانکہ ابھی تازہ بتازہ اللہ کا کلام رسول اللہ کی معرفت تم پر اتارا جا رہا ہے اور پڑھ کر تم کو سنا یا جا رہا ہے۔ و فیکم رسولہ اور اللہ کا رسول بھی تمہارے اندر موجود ہے جو تمہاری روک ٹوک کرتا وعظ فرماتا اور تمہارے شبہات مٹاتا ہے مطلب یہ ہے کہ کفر سے روکنے والے اور ایمان کی طرف بلانے والے سارے اسبابِ الٰہی موجود ہیں اور تمہارے سامنے جمع ہیں۔ قتادہ نے کہا اس آیت میں دو واضح علم مذکور ہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کا نبی۔ رسول خدا تو چلے گئے کتاب اللہ باقی ہے جو اللہ کی رحمت اور نعمت ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ رسول اللہ نے اپنے بعد قیامت تک ہونے والے اپنے جانشینوں کی طرف ہماری رہنمائی فرما دی ہے۔ حضرت زید بن ارقم کی روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ نے ہمارے مجمع میں کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور اللہ کی حمدو ثناء کے بعد فرمایا : لوگو ! میں محض ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا قاصد میرے پاس آئے گا اور میں اس کی دعوت قبول کروں گا میں تمہارے اندر دو بڑی عظمت والی چیزیں چھوڑ رہا ہوں پہلی کتاب اللہ ہے جس کے اندر ہدایت اور نور ہے تم اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور مضبوطی کے ساتھ تھامے رہو۔ (دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں اپنے اہل بیت کے متعلق تم کو اللہ (کے احکام اور خوف) کی یاد دلاتا ہوں۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ اللہ کی کتاب ہی اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے جو اس کے حکم پر چلے گا ہدایت پر ہوگا جو اس کو چھوڑ دے گا گمراہ ہوگا۔ (رواہ مسلم) ترمذی کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ میں تمہارے اندر ایسی چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس کو تھامے رہو گے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو گے (یہ دو چیزیں ہیں جن میں سے) ایک دوسری سے مرتبہ میں زائد ہے (ایک) اللہ کی کتاب ہے جو آسمان سے زمین تک ایک آویختہ رسیّ ہے (اس کو پکڑ کر آسمان تک پہنچا جاسکتا ہے دوسری چیز) میری عزت یعنی میرے اہل بیت ہیں حوض پر اترنے کے وقت تک یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے اسی لیے تم کو دیکھنا چاہئے کہ ان دونوں کے معاملہ میں تم میری نیابت کس طرح کرتے ہو۔ ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت جابر نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : میں نے حج میں عرفہ کے دن رسول اللہ کو اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہونے کی حالت میں خطبہ دیتے دیکھا آپ ﷺ فرما رہے تھے لوگو ! میں نے تمہارے اندر ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر اس کو پکڑ لو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے اللہ کی کتاب اور اپنی عترت یعنی اہل بیت۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ نے اہل بیت کو پکڑے رہنے کا اس لیے مشورہ دیا کہ اہل بیت ہی ولایت کے سلسلہ میں راہنمائی کے قطب ہیں اگلوں اور پچھلوں میں سے کوئی بھی ان کے وسیلہ کے بغیر درجہ ولایت تک نہیں پہنچ سکتا نمبر اوّل حضرت علی کا ہے پھر آپ کے صاحبزادگان ہیں حسن عسکری تک یہ سلسلہ آتا ہے اور آخری نمبر غوث الثقلین محئ الدین عبد القادر جیلانی کا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رح) نے اسی طرح بیان کیا ہے کہ ان کے بعد دوسرے اولیاء اور علماء امت کا مرتبہ ہے جو بطور وراثت اہل بیت کے حکم میں داخل ہیں کیونکہ سب کے سب اہل بیت ہی کے تابع ہیں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ و من یعتصم باللہ اور جو مضبوط پکڑ لے گا اللہ کو یعنی اللہ کے دین کو اور اللہ کی طرف ہمیشہ رخ رکھے گا۔ اصل لغت میں عصمت کا معنی ہے حفاظت اور کسی چیز کی حفاظت کرنے سے اسکا بچاؤ ہوجاتا ہے لہٰذا عاصم کا معنی ہوا بچاؤ کرنے والا (یعنی اللہ کے دین کے ذریعہ سے اپنا بچاؤ کرنے والا) اعتصام (باب افتعال) کا معنی ہے مضبوطی سے کسی چیز کو پکڑ لینا تاکہ ہلاکت سے محفوظ ہوجائے۔ فقد ھدی الی صراط مستقیم تو اس کو ضرور ہدایت مل جائے گی (ا اللہ تک پہنچنے کی) سیدھی راہ کی یعنی کھلے ہوئے راستہ کی جس پر چلنے والا کبھی بھٹک نہیں سکتا۔ بغوی نے مقاتل بن حبان کی روایت سے لکھا ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں اوس اور خزرج کے درمیان دشمنی اور لڑائی تھی جب رسول اللہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ نے دونوں میں صلح کرادی (اور دونوں قبیلے مسلمان ہو کر باہم صلح کے ساتھ رہنے لگے) اتفاقاً کچھ مدت کے بعد ثعلبہ بن غنم اوسی اور اسعد بن زرارہ خزرجی میں باہمی قبائلی برتری کے متعلق نزاع ہوگیا اوسی نے کہا ہم میں ہی سے تھا وہ خزیمہ بن ثابت جس کی تنہا شہادت کو دو گواہیوں کے برابرمانا گیا تھا اور ہم میں ہی سے تھا حنظلہ جس کو ملائکہ نے غسل دیا تھا اور ہم میں ہی سے تھا عاصم بن ثابت بن افلح اور ہم میں ہی سے تھا سعد بن معاذ جس کی وفات پر عرش الٰہی میں لرزہ آگیا تھا اور بنی قریظہ کے متعلق اس کے فیصلہ کو اللہ نے پسند کیا تھا خزرجی نے کہا ہم میں چار آدمی ایسے ہیں جنہوں نے قرآن کو محکم کرلیا ہے (یعنی قرآن کے حافظ اور لفظ لفظ کے قاری اور معانی کے عالم ہیں) ۔ ابی بن کعب اور معاذ بن جبل اور زید بن ثابت اور ابو زید اور ہم میں سے ہی ہیں سعد بن عبادہ جو انصار کے خطیب اور سردار ہیں غرض اسی طرح گفتگو کا ردو بدل ہوگیا دونوں کو غصہ آگیا اور دونوں نے فخریہ اشعار پڑھے آخر دونوں قبیلے اوس اور خزرج ہتھیار لے کر آگئے پھر رسول اللہ تشریف لے آئے اور اللہ نے آیت ذیل نازل فرمائی۔
Top