Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
مومنو! اگر تم اہلِ کتاب کے کسی فریق کا کہا مان لو گے تو وہ تمھیں ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں گے
یا یھا الذین امنوا اے اہل ایمان یعنی اے انصار۔ ان تطیعوا فریقاً من الذین اوتوا الکتاب اگر تم اہل کتاب کے کسی فریق یعنی شماس اور اس کے ساتھیوں کے کہنے میں آجاؤگے تو۔ یردوکم بعد ایمانکم کافرین وہ تمہارے مؤمن ہونے کے بعد دوبارہ تم کو کفر کی طرف لوٹا دیں گے یعنی اعمال کفر کی طرف لے جائیں گے زید کا بیان ہے کہ حضرت جابر نے فرمایا میں نے اس روز سے زیادہ کوئی دن کبھی بد آغاز اور خوش انجام نہیں دیکھا۔ شماس بن قیس ہی کے متعلق آیت : قل یا اھل الکتاب لم تصدون۔۔ نازل ہوئی تھی اس میں رسول اللہ کو حکم دیا گیا کہ اہل کتاب سے دریافت کریں۔ 1 ؂ اس سے اہل ایمان کی عظمت قدر کا اظہار اور مخاطبِ الٰہی بننے کا طرف اشارہ ہو رہا ہے۔ فریانی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ دور جاہلیت میں اوس و خزرج میں باہم جنگ تھی (دور اسلامی میں سب متفق ہوگئے لیکن پھر بھی جاہلیت کی یا ددلوں میں باقی تھی) ایک روز سب ملے جلے بیٹھے تھے کہ آپس کی عداوت کا کچھ ذکر آگیا اس تذکرہ (پارینہ) کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب غضب ناک ہوگئے اور ایک دوسرے کے مقابل ہتھیار اٹھا کر آگیا اس پر آیت :
Top