Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 18
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًۢا بِالْقِسْطِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ
شَهِدَ : گواہی دی اللّٰهُ : اللہ اَنَّهٗ : کہ وہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور علم والے قَآئِمًا : قائم (حاکم) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ جو انصاف پر قائم ہیں وہ بھی (گواہی دیتے ہیں کہ) اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
شَهِدَ اللّٰهُ : اللہ شاہد ہے یعنی عقلی دلائل قائم کرکے اور کتابیں نازل فرما کے اس نے واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ : کہ وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود موجود نہیں ہے۔ بغوی نے بروایت کلبی بیان کیا ہے کہ شام کے یہودی علماء میں سے دو عالم رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادہ سے آئے مدینہ کو دیکھ کر ایک نے دوسرے سے کہا یہ شہر تو اس شہر سے بہت ہی مشابہ ہے جہاں نبی آخر الزماں ﷺ کا ظہور ہوگا۔ جب دونوں خدمت گرامی میں پہنچے تو اپنی کتاب میں بیان کردہ صفات کو حضور ﷺ کی صفات سے مطابق پا کر پہچان لیا اور عرض کیا : کیا آپ محمد ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا : ہاں بولے کیا آپ احمد ﷺ بھی ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں محمد بھی ہوں اور احمد بھی۔ کہنے لگے ہم آپ سے کچھ پوچھتے ہیں اگر آپ ﷺ نے بتادیا تو ہم آپ کو مان لیں گے اور سچا قرار دیں گے فرمایا پوچھو کہنے لگے بتاؤ اللہ کی کتاب میں سب سے بڑی شہادت کونسی ہے اس پر آیت مذکورہ کا نزول ہوا اور وہ دونوں مسلمان ہوگئے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ نے اجسام سے چار ہزار سال پہلے ارواح کو پیدا کیا اور ارواح کی تخلیق سے چار ہزار سال پہلے رزق کو پیدا کیا اور مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے جب کہ وہ خود ہی تھا نہ آسمان تھا نہ زمین نہ نیک نہ بد خود ہی اپنے ایک ہونے کی شہادت دی اور فرمایا۔ شھد اللہ انہ لا الٰہ الا ھو۔. وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ : اور فرشتے اور اصحاب علم شاہد ہیں یعنی فرشتے اور ایماندار جن و انس اپنے دل سے مانتے اور زبانوں سے اللہ کی توحید کا اقرار کرتے ہیں۔ قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ : قَاءِمًا شَھِدَ کے فاعل یعنی اللہ سے حال ہے یعنی عدل کے ساتھ تمام مخلوق کا انتظام قائم رکھنے کی حالت میں اللہ شاہد ہے عدل کے ساتھ اس کا انتظام مخلوق پر قیام توحید کی واضح دلیل ہے یا ھُو سے حال ہے یا فعل مدح محذوف ہے اور اس کا یہ مفعول ہے یا اولوا العلم کے اندر جو لفظ علم ہے قاءِمًا اس کا مفعول ہے یعنی علماء اللہ کو قائم بالعدل جانتے ہیں اور اس بات کو پہچانتے ہیں کہ اللہ تقسیم اور علم میں عادل ہے اس کی شان میں ظلم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مالک الملک ہے جس طرح چاہتا ہے اپنی ملک میں تصرف کرتا ہے نہ کسی اطاعت گزار کو ثواب دینا اس پر لازم ہے نہ نافرمان کو عذاب دینا وہ جس کو چاہے گا بخش دے گا اس تفسیر کے مطابق۔ آیت میں معتزلہ کے مسلک کی کوئی دلیل نہیں (جو قائل ہیں کہ نیکو کار کا ثواب اور بد کار کا عذاب اللہ پر واجب ہے) ۔ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ : اس جملہ کا دوبارہ ذکر مزید تاکید کے لیے کیا نیز توحید کے دلائل کو جاننے اور دلائل کو دیکھ کر توحید کا اعتراف کرنے کی جانب مزید توجہ دلائی۔ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : وہ اپنی حکومت میں غالب ہے ‘ صنعت میں حکیم ہے۔ اللہ کی قدرت کا علم پہلے ہوتا ہے اور اس کی حکمت کا علم پیچھے اس لیے العزیز کو الحکیم سے پہلے ذکر کیا
Top