Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 17
اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ
اَلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے وَالصّٰدِقِيْنَ : اور سچے وَالْقٰنِتِيْنَ : اور حکم بجالانے والے وَالْمُنْفِقِيْنَ : اور خرچ کرنے والے وَالْمُسْتَغْفِرِيْنَ : اور بخشش مانگنے والے بِالْاَسْحَارِ : سحری کے وقت
یہ وہ لوگ ہیں جو (مشکلات میں) صبر کرتے اور سچ بولتے اور عبادت میں لگے رہتے اور (راہ خدا میں) خرچ کرتے اور اوقات سحر میں گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں
اَلصّٰبِرِيْنَ : نفس کی مخالفت پر جم جانے والے۔ یعنی مصائب میں بےصبر ہونے سے نفس کو روکنے والے خواہشات اور بری باتوں کی پیروی سے باز داشت کرنے والے۔ طاعت الٰہی اور اچھی باتوں کے پابند رہنے والے۔ (1) [ حضرت مؤلف کی مراد یہ ہے کہ عربی زبان میں لفظ صبر کے بعد عن آتا ہے یا علیٰ ۔ بر صورت اوّل صبر کا معنی ہوتا ہے روکنا باز رکھنا اور برشق دویم معنی ہوتا ہے ‘ پابند بنانا آیت میں الصابرینکے بعد نہ عَنْ ہے نہ عَلٰیاس لیے مطلق معنی مراد ہے روکنا بھی اور پابند رکھنا بھی۔ مطلب یہ ہے کہ متقی اپنے نفوس کو بری باتوں سے روکتے اور اچھی باتوں کا پابند بناتے ہیں پہلا وصف سلبی ہے دوسرا وصف ثبوتی۔ سلبی وصف کا معنی ہے رذائل اور قبائح سے خالی اور پاک ہونا۔ ثبوتی وصف کا معنی ہے فضائل اور محاسن سے آراستہ ہونا۔] وَالصّٰدِقِيْنَ : اور سچے یعنی قول۔ ادعاء احوال اور تمام دعو وں میں نقل واقعات میں اور ادائے شہادت میں سچے 2 ؂ اور سب سے بڑا سچ لا الٰہ الا اللہ اور محمد عبدہ ٗ و رسولہٗ کی شہادت ہے۔ (2) [ صدق کا لفظ عام ہے جیسے کذب عام ہے قول میں سچائی، تمام دعوؤں میں سچائی، کسی واقعہ کو نقل کرنے میں سچائی، ادائے شہادت میں سچائی، یہ تو صدق کی عام صورتیں ہیں لیکن صوفیہ کی اصطلاح میں صدق و کذب کا معیار ان صورتوں کے علاوہ ایک اور بھی ہے۔ سالک جب راہ سلوک طے کرتا ہے تو اثناء سیر میں کچھ مواقف ملتے ہیں اور کوئی موقف اصل منزل نہیں ہوتا لیکن صوفی دھوکہ کھا کر یا نادانی کی وجہ سے موقف کو منزل سمجھ لیتا ہے اور منزل پر پہنچنے کا دعویٰ کرنے لگتا ہے یا ابتدائی موقف پر پہنچ کر اگلے موقف تک پہنچنے کا مدعی بن بیٹھتا ہے۔ یہ سب کذب کی صورتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً سیر آثار کرنے والا صوفی سیر افعال کا مدعی ہوجائے تو جھوٹ ہوگا یاسیر افعال کرنے والا سالک سیر صفات کا دعویٰ کرنے لگے تو یہ بھی غلط ہوگا یا سیر صفاتی میں مشغول رہنے والا عارف سیر ذاتی کا ادعاء کرے تو یہ بھی اس کی نادانی اور دروغ بافی ہوگی۔ غرض اداء احوال میں بھی صدق ضروری ہے۔ وا اللہ اعلم ] وَالْقٰنِـتِيْنَ : اور اللہ کی طاعت پر ہمیشہ پابندی رکھنے والا جن کے پیش نظر ہر وقت اللہ کی خوشنودی کا حصول ہی ہوتا ہے۔ وَالْمُنْفِقِيْنَ : اور اپنے مالوں کو اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنے والے۔ اس جگہ تک کلام مذکور ہر قسم کی طاعت کو حاوی ہوگیا اس میں درستی اخلاق و اقوال بھی آگئی اور جسمانی و مالی اعمال کی اصلاح تھی۔ وَالْمُسْـتَغْفِرِيْنَ بالْاَسْحَارِ : یعنی ظاہری اور باطنی اطاعت گذاریوں کے باوجود وہ اللہ سے ڈرتے ہیں اپنی کوتاہی کا اقرار کرتے ہیں اس لیے معافی کے طلب گار رہتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ بندہ سے اللہ کی عبادت اس طرح ہوسکتی ہی نہیں جیسا اللہ کی عظمت و جلالت کا تقاضا ہے بلکہ بندہ جب یہ سمجھتا ہے کہ میرے تمام اعمال و افعال بھی اللہ ہی کے پیدا کئے ہوئے ہیں یہ اللہ کا احسان و کرم ہے کہ اس نے اپنی عبادت کی توفیق عنایت فرمائی اور مجھے اپنے لیے منتخب فرما لیا تو وہ جان لیتا ہے کہ میری کی ہوئی عبادت اگر قبول کے قابل ہوجائے تو یہ محض اللہ کا کرم ہے اس کا شکر ہے ورنہ اللہ کی نعمت کا کما حقہ شکر ادا کرنا تو ممکن ہی نہیں۔ اللہ ہی اپنی مغفرت اور خوشنودی سے ڈھانک لے تو نجات ہوسکتی ہے : یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا (قُلْ لَا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلََامَکُمْ ) بَلِ اللہ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ھَدَاکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ وہ آپ پر اپنے مسلمان ہوجانے کا احسان دھرتے ہیں آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھ پر اپنے مسلمان ہونے کا احسان نہ رکھو بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان کی توفیق دی۔ اگر تم سچے ہو۔ طلب معافی کے لیے سحر کے وقت کا خصوصی ذکر اس لیے کیا کہ یہ وقت قبولیت دعا سے بہت ہی قرب رکھتا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : ہر رات کا جب آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے باری تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے۔ میں ہی (سارے جہان کا خود مختار) بادشاہ ہوں کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو عطا کروں کوئی ہے جو مجھ سے گناہوں کی معافی چاہے اور میں اس کی مغفرت کروں۔ (بخاری ومسلم) مسلم (رح) کی روایت میں اتنا اور ہے کہ پھر پروردگار اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے قرض دینے والا۔ ایسے شخص کو جو مفلس نہیں ہے اور نہ حق مارنے والا۔ یہ ندا صبح کی پو پھٹنے تک ہوتی رہتی ہے۔ بغوی نے حسن بصری کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا بیٹے اس مرغ سے بھی زیادہ عاجز نہ ہو جو سحر کے وقت چیختا ہے اور تو بستر پر پڑا سوتا رہتا ہے۔ زید بن اسلم نے فرمایا کہ : المستغفرین بالاسحار سے وہ لوگ مراد ہیں جو فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں سحر کا وقت صبح کے قریب ہی ہوتا ہے اس لیے بالاسحار فرمایا۔ حسن بصری (رح) نے آیت کی تشریح میں فرمایا کہ وہ سحر کے وقت تک نماز (تہجد) کو دراز کرتے ہیں پھر استغفار کرتے ہیں۔ نافع کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ رات کو (یا رات بھر) عبادت کرتے آخر میں فرماتے نافع کیا سحر ہوگئی میں عرض کرتا (ابھی) نہیں۔ آپ لوٹ کر پھر نماز پڑھنے لگتے اور اگر میں کہہ دیتا جی ہاں تو بیٹھ کر استغفار کرتے اور صبح تک دعا کرتے رہتے تھے۔ مذکورہ بالا تمام صفات کے درمیان واؤ عاطف کا لانا بتارہا ہے کہ ہر صفت بجائے خود (متقیوں میں) کامل ہے اور وہ ہر صفت میں کمال رکھتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ ہر صفت کے موصوف جدا جدا گروہ ہیں صابر تو پاک دل اور پاکیزہ نفوس والا صوفیہ کا گروہ ہے مجاہدین اور شہداء کا شمار بھی انہی صابرین میں ہے اور صادقین سے مراد وہ سچے علماء ہیں جو سچی روایات بیان کرتے ہیں اور قانتین سے مراد زاہدوں کا گروہ ہے جو طویل قنوت کے ساتھ نمازیں پڑھتے اور خوف و رجا کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں اور منفقین سے مراد وہ دولتمند مؤمن صالح ہیں جو جائز راستوں سے کما کر راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور مستغفرین بالاسحار وہ لوگ ہیں جو نادانی سے برے کام کو بیٹھتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہیں کرو گے تو اللہ تم کو لے جائے گا (فنا کردے گا) اور تمہاری جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے جو گناہ کریں گے پھر گناہ کے بعد معافی کے طلبگار ہوں گے اور ان کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (رواہ مسلم) امام احمد اور ابو یعلی نے حضرت ابو سعید کی روایت سے بھی اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے۔ آیت میں اللہ نے ترتیب وار ہر گروہ کا ذکر اس کے مرتبہ کے موافق کیا ہے افضل ترین، افضل تر، افضل، فاضل وغیرہ وغیرہ۔
Top