Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 188
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَحْسَبَنَّ : آپ ہرگز نہ سمجھیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَفْرَحُوْنَ : خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس پر جو اَتَوْا : انہوں نے کیا وَّيُحِبُّوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْمَدُوْا : ان کی تعریف کی جائے بِمَا : اس پر جو لَمْ يَفْعَلُوْا : انہوں نے نہیں کیا فَلَا : پس نہ تَحْسَبَنَّھُمْ : سمجھیں آپ انہیں بِمَفَازَةٍ : رہا شدہ مِّنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جو لوگ اپنے (ناپسند) کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور پسندیدہ کام) جو کرتے نہیں ان کے لئے چاہتے ہیں کہ ان ک تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے رستگار ہوجائیں گے۔ اور انہیں درد دینے والا عذاب ہوگا
لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا و یحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا فلا تحسبنھم بمفازۃ من العذاب و لھم عذاب الیم جو لوگ اپنے (بد) کردار پر خوش ہوتے ہیں اور جو (اچھے) کام نہیں کئے، چاہتے ہیں کہ ان پر ان کی تعریف کی جائے سو تم ہرگز مت خیال کرنا کہ ایسے لوگ خصوصی عذاب سے بچے رہیں گے۔ (وہ نہیں بچیں گے) اور ان کو دکھ کا عذاب ہوگا۔ مَا اَتَواْ سے مراد ہے لوگوں کو گمراہ کرنا۔ فریب کاری کرنا۔ حق کو چھپانا یا عام گناہ مراد ہیں۔ مَا لَمْ یَفْعَلواْ سے مراد ہے عہد کو پورا کرنا حق کو ظاہر کرنا سچی خبر دینا اور دوسری نیکیاں۔ بد کرداری پر خوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بد کرداری تکذیب نبوت کی مدد گار تھی۔ ممکن ہے کہ الَّذین یفرحون سے مراد وہ منافق ہوں جنہوں نے واقع میں دل سے تو اطاعت نہیں کی مگر دکھاوٹ کے لیے اطاعت کا اظہار کرتے تھے اور باوجودیکہ زاہد اور اللہ کے فرمانبردار نہ تھے مگر اس بات سے خوش ہوتے اور خواہش کرتے کہ ان کے زہد و اطاعت کی تعریف کی جائے اوّللا تحسبن سے خطاب رسول اللہ کو ہے اس کا پہلا مفعول الذین اور دوسرا مفعول بمفازۃ ہے اور دوسرا لا تحسبن پہلے لا تحسبن کی تاکید ہے اور جو فاعل اور اوّل مفعول پہلے لا تحسبن کا ہے وہی اس کا ہے۔ العذاب سے مراد ہے دنیا میں رسوائی، مذمت اور عدم قبول اور عذاب الیم سے مراد ہے آخرت کا عذاب۔ شیخین وغیرہ نے حمید بن عبد الرحمن بن عوف کے طریق سے اور بغوی نے بخاری کے طریق سے بروایت علقمہ بن وقاص بیان کیا کہ مروان نے اپنے دربان سے کہا جا کر ابن عباس سے دریافت کرو کہ جب ہم میں سے ہر شخص اپنے کئے پر خوش اور نا کردہ نیکی پر تعریف کئے جانے کو پسند کرتا ہے اور ایسے شخص کو عذاب دیا جانا یقینی ہے تو کیا پھر ہم سب کو عذاب دیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : تمہارا آس آیت سے کیا تعلق۔ اس کا واقعہ تو یہ ہے کہ رسول اللہ نے یہودیوں کو طلب فرمایا اور کوئی بات پوچھی یہودیوں نے اصل بات چھپالی اور کوئی دوسری بات بتائی اور رسول اللہ پر ظاہر یہ کیا کہ آپ نے جو کچھ دریافت کیا تھا ہم نے وہی بتایا اور اس فعل پر انہوں نے مستحق تعریف بننا چاہا۔ لیکن اپنی جگہ پر وہ اس امر سے خوش تھے کہ ہم نے وہ بات چھپالی جو رسول اللہ ﷺ نے دریافت کی تھی اس بیان کے بعد حضرت ابن عباس ؓ نے آیت : وَ اِذْ اَخَذَ اللہ مِیْثَاقَ الَّذِیْن۔۔ بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا تک تلاوت کی۔ شیخین نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے لکھا ہے کہ کچھ منافق ایسے تھے کہ جب رسول اللہ کسی جہاد پر جاتے تھے تو وہ رہ جاتے تھے جہاد پر نہیں جاتے تھے اور اپنے بیٹھ رہنے سے خوش ہوتے تھے لیکن جب حضور واپس آتے تھے تو یہ لوگ قسمیں کھا کر معذرت پیش کرتے تھے اور نا کردہ نیکی پر تعریف کے خواستگار ہوتے تھے اس پر آیت : لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بما اتوا۔۔ نازل ہوئی۔ عبد نے اپنی تفسیر میں زیدبن اسلم کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت رافع بن خدیج اور حضرت زید بن ثابت مروان کے پاس موجود تھے مروان نے حضرت رافع سے پوچھا کہ آیت : لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بما اتوا کس بابت نازل ہوئی تھی ؟ حضرت رافع نے فرمایا : کچھ منافق ایسے تھے کہ جب رسول اللہ کسی جہاد پر جاتے تو وہ عذر معذرت کرکے ساتھ نہیں جاتے تھے اور کہتے تھے ہم دل سے چاہتے تھے کہ آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ ہوتے مگر خاص مجبوری کی وجہ سے رکنا پڑگیا۔ انہی منافقوں کے متعلق اس آیت کا نزول ہوا۔ حضرت رافع کا یہ کلام سن کر معلوم ہوتا تھا مروان کو اطمینان نہیں ہوا حضرت رافع نے گفتگو کا رخ بدل کر حضرت زید بن ثابت سے کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں کیا آپ ﷺ کو اس کا علم ہے ؟ حضرت زید نے فرمایا : ہاں (ایسا ہی ہے) حافظ ابن حجر (رح) نے لکھا ہے کہ دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے کہ آیت کا نزول دونوں گروہوں (یہود اور منافقین) کے حق میں ہوا (یعنی دونوں واقعات ایک ہی زمانہ میں ہوئے اور آیت کا نزول دونوں کے متعلق ہوا۔ فراء نے بیان کیا ہے کہ یہودی کہتے تھے ہماری کتاب پہلے ہے ہم اہل الصلوٰۃ اور اہل طاعت ہیں لیکن اس کے باوجود وہ رسول اللہ کی نبوت کا اقرار نہیں کرتے تھے اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ابن ابی حاتم نے مختلف طریقوں سے تابعین کی ایک جماعت کی روایت سے بھی اسی طرح نقل کیا ہے اور ابن جریر نے اسی کو ترجیح بھی دی ہے ہوسکتا ہے کہ اس واقعہ کے متعلق بھی یہ آیت نازل ہوئی ہو کوئی وجہ مانع نہیں۔ بغوی نے عکرمہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آیت کا نزول فخاض اور اشیع اور دوسرے علماء یہود کے متعلق ہوا جو لوگوں کو گمراہ کرنے اور علماء کہلانے سے خوش ہوتے تھے باوجودیہ کہ علماء نہیں تھے مجاہد نے کہا یہودی خوش ہوتے تھے کہ اللہ نے آل ابراہیم کو مراتب عطا فرمائے حالانکہ وہ خود اس سے بےبہرہ تھے (حضرت ابراہیم کے پیرو نہ تھے) ۔ قتادہ اور مقاتل نے کہا کہ خیبر کے یہودیوں نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر کہا ہم آپ کو پہچانتے اور تصدیق کرتے ہیں (کہ آپ نبی ﷺ موعود ہیں) اور ہم تمہارے (یعنی مسلمانوں کے) خیال سے متفق ہیں اور تمہارے مددگار ہیں مگر یہ باتیں (وہ صرف زبان سے کہتے تھے) ان کے دلوں میں نہیں تھیں جب حضور ﷺ کے پاس سے اٹھ کر باہر آئے تو مسلمانوں نے ان سے کہا تم نے خوب کہا ایسا ہی کرنا غرض مسلمانوں نے ان کی تعریف کی اور ان کے لیے دعا کی اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔
Top