Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 192
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو مَنْ : جو۔ جس تُدْخِلِ : داخل کیا النَّارَ : آگ (دوزخ) فَقَدْ : تو ضرور اَخْزَيْتَهٗ : تونے اس کو رسوا کیا وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ : کوئی اَنْصَارٍ : مددگار
اے پروردگار جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا اسے رسوا کیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ اے ہمارے رب تو نے جس کو دوزخ میں داخل کیا تو بس اس کو رسوا ہی کردیا۔ باربار رَبَّنَا کا ذکر (چند وجوہ سے کیا گیا ہے) تضرع اور زاری میں زور پیدا کرنے کے لیے۔ ہر مقصد کو مستقل حیثیت میں ظاہر کرنے کے لیے۔ ہر مطلب کی بلندی شان ظاہر کرنے کے لیے وصف ربوبیت پر پورا پورا اعتماد پیدا کرنے کے لیے اور اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنے کے لیے خَزَاہُ اس پر غالب آیا اس کو اس کی خواہش سے روک دیا یا خزی (جمع) مصیبت میں پڑگیا۔ اَخْزَاہ اللہ (افعال) اللہ نے اس کو رسوا کردیا۔ (قاموس) و ما للظالمین من انصار اور ظالموں کا کوئی ساتھ نہیں۔ بجائے ضمیر کے لفظظالمین کہنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ظلم کی وجہ سے ہی وہ دوزخ میں جائیں گے۔ نصرت کا معنی ہے قوت سے دفع کرنا قہار کے مقابلہ میں طاقت سے دفع کرنے کا تصور ہی نہیں ہوسکتا ورنہ قہار کا عاجز ہونا لازم آئے گا اور عاجز ہونا صفت ربوبیت کے منافی ہے لیکن اس سے شفاعت کی نفی نہیں ہوتی (کیونکہ شفاعت سے دفع مصیبت قوت کے ساتھ نہیں ہوتا) ایک شبہ اللہ نے فرمایا ہے : یَوْمَ لَا یُخْزِی اللہ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اَمَنُوْا مَعَہٗ اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے رسوا نہیں کرے گا۔ لیکن مؤمن دوزخ میں جائیں گے اور اس آیت میں صراحت ہے کہ جو دوزخ میں جائے گا اللہ اس کو رسوا کردے گا (نتیجہ یہ نکلا کہ بعض مؤمن رسوا ہوں گے) دونوں آیتوں کے تضاد کو دور کرنے کی کیا صورت ہوگی۔ ازالہ ہم کہتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص دوزخ میں جائے گا جب تک وہ دوزخ میں رہے گا اس کی رسوائی ہوگی یا جن مؤمنوں کو رسوا نہ کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ان سے کامل مؤمن مراد ہیں (مَعَہٗ کا لفظ اس کا قرینہ ہے۔ مترجم) حضرت انس اور قتادہ نے مَنْ تدخل النار کا ترجمہ کیا ہے جس کو تو دوزخ میں ہمیشہ رکھے سعید بن منصور نے کہا اس آیت (میں رسوا نہ کرنے) کا حکم ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جو کبھی دوزخ سے نہیں نکلیں گے۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا : مؤمن کو رسوا کرنے سے مراد ہے ادب آموزی، رسوائی کا درجہ اس سے اونچا ہے۔
Top