Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 193
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا١ۖۗ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّنَا : بیشک ہم نے سَمِعْنَا : سنا مُنَادِيًا : پکارنے والا يُّنَادِيْ : پکارتا ہے لِلْاِيْمَانِ : ایمان کے لیے اَنْ اٰمِنُوْا : کہ ایمان لے اؤ بِرَبِّكُمْ : اپنے رب پر فَاٰمَنَّا : سو ہم ایمان لائے رَبَّنَا : اے ہمارے رب فَاغْفِرْ : تو بخشدے لَنَا : ہمیں ذُنُوْبَنَا : ہمارے گناہ وَكَفِّرْ عَنَّا : اور دور کردے ہم سے سَيِّاٰتِنَا : ہماری برائیاں وَتَوَفَّنَا : اور ہمیں موت دے مَعَ الْاَبْرَارِ : نیکوں کے ساتھ
اے پروردگارہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا کہ ایمان کے لیے پکار رہا تھا (یعنی) اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے اے پروردگار ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کر اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا
ربنا اننا سمعنا منادیا اے ہمارے ربّ ! ہم نے ایک ندا دینے والے سے سنا۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ اور اکثر علماء کے نزیک منادی 1 ؂ سے مراد ہیں رسول اللہ۔ قرطبی نے کہا قرآن مراد ہے کیونکہ ہر شخص کی ملاقات تو رسول اللہ سے نہیں ہوسکتی۔ میں کہتا ہوں رسول اللہ کا متواتر فرمان سننا ہی ایسا ہے جیسے کسی نے خود حضور ﷺ سے سنا (یعنی رو در رو ہو کر سننا) جس طرح مفید یقین ہوتا ہے اسی طرح اگر کوئی فرمان تواتر کے ساتھ کسی کے پاس پہنچے تو وہ بھی خود زبان مبارک سے سننے کی طرح مفید یقین ہے۔ پکار نے والے کو سنا۔ فرمایا : پکارنے والے کے قول کو سنا۔ نہیں فرمایا : کیوں ؟ سننے کی قوت بتانے کے لیے۔ پہلے منادیاً کو نکرہ ذکر کیا۔ منادی کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے پھر اس کی ندا کو ایمان کے ساتھ مفید کیا۔ منادی اور نداء کی مزید عظمت بیان کرنے کے لیے کیونکہ ایمان کے لیے پکارنے والے سے زیادہ باعظمت منادی اور ندائے ایمانی سے بڑھ کر کوئی ندا ممکن نہیں۔ ینادی للایمان جو پکار رہا تھا ایمان کے لیے۔ مادۂ نداء کے بعد الیٰ بھی آتا ہے کیونکہ ندا کے مفہوم میں پہنچنے کا مفہوم شامل ہے اور لفظ نداء کے بعد لام بھی آتا ہے کیونکہ لام خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے اور مقصود ندائی مخصوص ہوتا ہے۔ ان امنو بربکم کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ اَنْ مفسرہ ہے نداء کے اندر قول کا معنی ہوتا ہے (یعنی وہ ایمان کے لیے پکار کر کہہ رہا تھا کہ) یا اَنْ مصدری ہے اور باء مقدر ہے اصل میں تھا بِاَنْ اٰمِنُوْا۔ فامنا سو ہم اس پر ایمان لائے۔ فقط دعوت ایمان پر ایمان لانا بتارہا ہے کہ ایمان کی بناء (عقلی دلیلوں پر نہیں ہے بلکہ) صرف شارع کی طرف سے دیئے ہوئے حکم پر ہے اس آیت سے شیخ ابو منصور ماتریدی نے استدلال کیا ہے کہ ایمان میں استثناء باطل ہے 1 ؂ بلکہ اسطرح کہنا واجب ہے کہ میں یقینی مؤمن ہوں۔ ربنا فاغفرلنا ذنوبنا اے ہمارے رب پھر معاف کردے ہمارے کبیرہ گناہ۔ فاغفر میں فاء سببیت کی 2 ؂ ہے کیونکہ ایمان سبب مغفرت ہے مغفرت بغیر ایمان کے نہیں ہوسکتی۔ و کفر عنا سیئتنا اور ہماری بدکاریاں (یعنی صغیرہ گناہ) ہم سے دور کردیکَفِّر باب تفعیل سے امر ہے اور باب تفعیل فعل کی کثرت کو ظاہر کرتا ہے صغیرہ گناہ بکثرت ہوتے ہیں اس لیے درخواست بھی بار بار معاف کرنے کی۔ یعنی بار بار ہماری برائیوں پر پردہ ڈال۔ وتوفنا مع الابرار اور نیکوں (کے گروہ) میں شامل کرکے ہمیں موت دے۔ ابرار جمع ہے۔ بَرٌّ یا بارٌّکی مراد ہیں سچے اور بکثرت نیکی کرنے والے اور بہت بھلائی والے لوگ۔ اپنے آپ کو نیکوں میں شامل کرنے کی دعا کی اور خود نیک ہونے کا اظہار نہیں کیا محض عاجزی اور خضوع اور انکسار نفس کی وجہ سے کیونکہ خضوع ہی اللہ کو محبوب ہے۔ نیکوں کے ساتھ موت دینے کا معنی یہ نہیں ہے کہ نیکوں کی موت کے وقت ہماری موت ہو ایسی دعاء علاوہ غیر مفید ہونے کے عادۃً ناممکن بھی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہم کو ان کے زمرہ میں داخل کرکے اور نیک بنا کے موت دے۔ ایک شبہ یہ تو موت کی دعا اور تمنا ہے اور موت کی دعا سے رسول اللہ نے منع فرمایا جیسے سورة بقرہ کی آیت : فتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ کی تفسیر میں گذر چکا ہے۔ ازالہ مسئلہ کی تحقیق ہم کرچکے ہیں کہ موت کی تمنا اور دعا کسی مالی نقصان یا جسمانی دکھ سے تنک آکر ناجائز ہے مطلقاً ناجائز نہیں ہے اس کے علاوہ اس آیت سے مراد موت کی دعا نہیں ہے بلکہ مرتے دم تک نیکی اور صلاح عمل پر قائم رکھنے کی دعامقصود ہے کہ موت آئے تو صلاح و نیکی کی حالت میں آئے فوری موت کی طلب کا اظہار مقصود ہی نہیں ہے جیسے آیت : وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ میں غیر اسلامی حالت پر مرنے کی ممانعت کرنا نہیں ہے موت (کسی حالت میں ہو) انسان کے بس میں ہی نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ تمہاری زندگی کی ہر حالت اسلامی ہو اور ہر وقت تم مسلمان رہو تاکہ جب بھی موت آئے تو اسلام پر آئے۔
Top