Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 34
ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۚ
ذُرِّيَّةً : اولاد بَعْضُهَا : وہ ایک مِنْ : سے بَعْضٍ : دوسرے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے اور خدا سننے والا (اور) جاننے والا ہے
ذُرِّيَّةًۢ : اس لفظ کا وزن فُعِّیْلَۃً ہے یا فُعُّوْلَۃً اوّل شق پر اس کاذَرٌّ مادہ ہوگا ذَرٌّ چھوٹی چیونٹیاں، دوسری شق پر ذُرٌ مادہ ہوگا ذرءٌ کا معنی پیدا کرنا۔ ذُرِیت کا اطلاق اولاد پر بھی ہوتا ہے اور باپ، دادا پر بھی اللہ نے فرمایا : و اٰیَۃٌ لَّھُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَھُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ اولاد ذُرِّیت اس لیے ہوتی ہے کہ اللہ ان کو باپ سے پیدا کرتا ہے اور آباء کو ذریت اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اولاد کا مبداء تخلیق ہوتے ہیں۔ ذریت کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور جمع پر بھی۔ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍ : یہ جملہ ذریۃً کی صفت ہے یعنی اللہ نے نوح ( علیہ السلام) اور آل ابراہیم (علیہ السلام) عمران کو پیدا کیا اور اتنی کثرت سے پیدا کیا کہ ان کی نسل چیونٹیوں کی طرح نکل پڑی ایک دوسرے کی نسل سے ہیں یا باہمی امداد اور دینی اتحاد کے لحاظ سے ایک دوسرے کے گروہ میں سے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : و ان من شیعتہ لابراہیم یعنی نسلی یا دینی لحاظ سے انکے گروہ میں سے ابراہیم (علیہ السلام) تھے۔ بعضھا من بعض کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قوم کے اندر سے کسی ایک کو چن لینا اللہ کا دستور ہے لہٰذا قریش کو کوئی تعجب نہ ہونا چاہئے کہ رسول اللہ کا انتخاب اللہ نے قریش میں سے کرلیا۔ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ : یعنی لوگ جو بعض لوگوں کے انتخاب پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں اللہ انکے اس قول کو خوب سنتا ہے اور عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے کہ منتخب کئے جانے کی صلاحیت کس میں ہے یا یہ مطلب ہے کہ عمران کی بیوی کے کلام کو اللہ خوب سنتا تھا اور ان کی نیت سے واقف تھا۔
Top