Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 59
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّ : بیشک مَثَلَ : مثال عِيْسٰى : عیسیٰ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک كَمَثَلِ : مثال جیسی اٰدَمَ : آدم خَلَقَهٗ : اس کو پیدا کیا مِنْ : سے تُرَابٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوگیا
عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے
اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ : دونوں جگہ مثل کا معنی ہے عجیب حالت یعنی اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی عجیب حالت آدم کی عجیب حالت کی طرح ہے۔ وجہ مشابہت یہ ہے کہ۔ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ : اللہ نے آدم ( علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا۔ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ : پھر اس کا لبد سے کہا زندہ آدمی ہوجا۔ فَيَكُوْنُ : فوراً وہ ہوگیا۔ یہ گذشتہ حال کی حکایت ہے یا یہ مطلب ہے کہ آدمی کو مٹی سے بنانے کا اندازہ کیا اور اندازۂ علمی کو موجود ہوجانے کا حکم دیا تو وہ موجود ہوگیا 1 ؂۔ لیکن یہاں واقعہ کی تاخیر مدت مراد نہیں ہے بلکہ ایک بیان کی دوسرے بیان سے تاخیر مراد ہے یعنی اوّل آدم کا مٹی سے پیدا کرنا بیان کیا پھر پیدا کرنے کا طریقہ بتادیا کہ حکم دیدیا بس وہ پیدا ہوگیا۔ مطلب یہ کہ آدم کے باپ نہیں تھے۔ نہ پیٹ میں رہنے اور دودھ پینے اور دودھ چھوڑنے کی نوبت آئی عیسیٰ کی پیدائش کی حالت بھی گو عجیب ہے کہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے مگر آدم کی پیدائش کی حالت اس سے بھی زیادہ عجیب ہوئی کہ بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تعجب آگیں ہونے میں دونوں کی پیدائش کی حالت مشترک ہے مگر ایک میں تعجب آگینی کم ہے اور دوسری میں زیادہ کم عجیب کو زیادہ عجیب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ عمومی ضابطہ تولید کی خلاف ورزی دونوں جگہ ہے لیکن ایک میں کم اور دوسری میں زیادہ۔ اس بیان سے مادہ خصومت ہی کی بیخ کنی ہوجاتی ہے اور نزاع پیدا کرنے والے کا شبہ کا ہی استیصال ہوجاتا ہے۔ اس آیت کا نزول نجران کے عیسائی نمائندوں کے حق میں ہو اتھا۔ نجران کے نمائندوں نے رسول اللہ سے عرض کیا تھا آپ ﷺ ہمارے آقا کو کیوں گالی دیتے ہیں حضور ﷺ نے پوچھا میں کیا کہتا ہوں۔ بولے آپ ﷺ آپ ان کو بندہ کہتے ہیں فرمایا : بیشک وہ اللہ کے بندے ‘ اللہ کے رسول اور اللہ کا کلمہ (یعنی صرف حکم) تھے جو عذراء بتول کے شکم میں اللہ نے ڈال دیا تھا یہ سن کر اہل وفد کو غصہ آگیا اور کہنے لگے کیا آپ نے کوئی آدمی ایسا دیکھا ہے جو بن باپ کے پیدا ہوا ہو اس گفتگو کے بعد اللہ نے وفد نجران کو لا جواب بنانے اور خاموش کردینے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔ ابن ابی حاتم نے بطریق عوفی حضرت ابن عباس ؓ کا قول بھی اسی طرح نقل کیا ہے ابن ابی حاتم نے حسن بصری کا قول بیان کیا ہے کہ نجران کے دو راہب رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک نے پوچھا عیسیٰ کا باپ کون تھا ؟ رسول اللہ کی عادت تھی کہ اللہ کا حکم آنے سے پہلے آپ فوراً ہی جواب نہیں دیا کرتے تھے۔ اس پر آیت : ذلک نتلوہ سے من الممترین تک نازل ہوئی (اور وہ راہب لاجواب ہوگئے) کیونکہ بغیر ماں باپ کے آدم کے مٹی سے پیدا ہونے کا ان کو بھی اقرار تھا وہ عیسائی بھی کس قدر جاہل تھے کہ یہ تو پوچھا کہ کیا کوئی انسان بن باپ کے پیدا ہوتے آپ نے دیکھا ہے اور خود یہ نہ سوچا کہ انہوں نے کبھی کسی بکری کا بچہ آدمی کو یا آدمی کا بچہ بکری کو دیکھا ہے حالانکہ دونوں میں حیوانی جنس کا اشتراک ہے اختلاف ہے تو صرف نوعیت کا پھر (جنسی تباین بلکہ ہر طرح کے اختلاف کے باوجود) انہوں نے کیسے فیصلہ کرلیا کہ وہ اللہ جو ایک اور ہر چیز سے بےنیاز اور قدیم ہے اور اس کی مثل کوئی بھی نہیں ہے وہ عیسیٰ کا باپ ہوگیا حالانکہ عیسیٰ ایک مخلوق جسم رکھتا تھا جو حادث تھا، کھانا کھاتا اور سوتا بھی تھا اور اس کو موت بھی آئے گی۔ لاریب اللہ نہ کسی کا والد ہے نہ مولود نہ اس کا کوئی ہم سر ہے۔ فائدہ اس آیت سے قیاس کا شرعی حجت ہونا ثابت ہو رہا ہے کیونکہ تخلیق آدم پر قیاس کرتے ہوئے عیسیٰ کی بن باپ کے پیدائش کے جواز پر اللہ نے استدلال کیا ہے (پس مسلمانوں کا وہ گروہ جو صرف قرآن، سنت اور اجماع کو احکام کی علت قرار دیتا ہے اور قیاس کو دلیل حکم نہیں مانتا اس آیت سے اس کے قول کی تردید مستفاد ہوتی ہے) ۔
Top