Tafseer-e-Mazhari - Al-Ahzaab : 46
وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا
وَّدَاعِيًا : اور بلانے والا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف بِاِذْنِهٖ : اس کے حکم سے وَسِرَاجًا : اور چراغ مُّنِيْرًا : روشن
اور خدا کی طرف بلانے والا اور چراغ روشن
وداعیا الی اللہ باذنہ . اور اللہ کے حکم (اور اس کی توفیق) سے اللہ کی (توحید اور طاعت یا جنت یا بےکیف دیدار کی) طرف بلانے والا۔ بِاِذْنِہٖ کی قید کا اضافہ کرنے سے اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ کی توحید و اطاعت کی دعوت دینا بڑا سخت کام ہے ‘ اللہ کی مدد اور توفیق کے بغیر اس کی تکمیل ناممکن ہے ‘ خصوصاً اللہ کے دیدار کی دعوت تو اتنی دشوار ہے کہ بغیر خاص فضل خداوندی کے بندہ کی رسائی بارگاہ الٰہی تک محال ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : اِنَّکَ لاَ تَھْدِیْ مَنْ اَجْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللہ یَھْدِی مِنْ یَّشَآءُ آپ اگر کسی کو ہدایت یاب کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے ‘ بلکہ اللہ جس کو سیدھے راستہ پر چلانا چاہتا ہے ‘ اس کور (راہ راست پر چلنے کی) توفیق دیتا ہے۔ حضرت ربیعہ جرشی کا بیان ہے کہ (خواب میں) کوئی رسول اللہ کے پاس آیا اور اس نے کہا : تمہاری آنکھیں سوئیں (مگر) کان سنیں اور دل سمجھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : چناچہ میری آنکھ سو رہی تھی ‘ دونوں کان سن رہے تھے اور دل سمجھ رہا تھا کہ کسی نے کہا : ایک سردار نے ایک مکان بنوایا ‘ اس میں دسترخوان لگوایا اور (دعوت عام دینے کیلئے) ایک بلانے والے کو بھیجا۔ پکارنے ولے کی آواز پر جو آگیا ‘ اس نے مکان کے اندر داخل ہو کر دسترخوان پر (کھانا) کھالیا اور گھر والا سردار بھی اس سے خوش ہوگیا اور جس نے داعی کی دعوت قبول نہیں کی ‘ وہ نہ گھر میں آیا نہ دسترخوان سے کچھ کھا سکا اور سردار اس سے ناراض ہوگیا (اس کی تعبیر یہ ہے کہ) سردار اللہ ہے ‘ گھر (جو سردار نے بنایا ہے) اسلام ہے ‘ محمد ﷺ داعی ہیں اور دسترخوان جنت ہے۔ رواہ الدارمی۔ وسراجا منیرا اور روشن چراغ (بنا کر بھیجا ہے) رسول اللہ ﷺ کو روشن چراغ کہنے کی یہ وجہ ہے کہ جس طرح رات کی تاریکی میں چراغ جلایا جاتا ہے اور اس کی روشنی سے راستہ نظر آجاتا ہے ‘ اسی طرح رسول اللہ ﷺ سے بھی (اسلام کی) روشنی اور ہدایت حاصل کی جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ رسول اللہ اپنی زبان سے تو اللہ کی طرف آنے کی دعوت دیتے تے اور دل کے اعتبار سے روشن چراغ کی طرح تھے کہ تمام مؤمن آپ ہی کے نور سے استفادہ کرتے اور آپ ہی کے رنگ میں رنگ جاتے تھے (ایسا ہی بنا کر اللہ نے آپ کو بھیجا تھا) جیسے یہ عالم سورج کی روشنی سے اور ایک گھر چراغ کی روشنی سے منور ہوجاتا ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام کو ساری امت پر فضیلت حاصل تھی۔ علوم نبوت جو حضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ سے امت نے حاصل کئے ‘ اس میں تو صحابہ کے ساتھ ساری امت شریک ہے۔ کچھ صحابہ کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصل سننے والا بھول جاتا ہے اور جس کو حکم پہنچایا جاتا ہے ‘ وہ زیادہ یاد رکھتا ہے۔ امتیاز صحابہ یہ ہے کہ وہ براہ راست انوار نبوت کے خوشہ چیں تھے۔ دوسروں کو جو روشنی ملی ‘ وہ صحابہ کے توسط سے ‘ پھر تبعین سے تبع تابعین کو ‘ اسی طرح قیامت تک نور نبوت امت کے دلوں کو روشن کرتا رہے گا لیکن اس خوشہ چینی میں سننے والا مشاہدہ کرنے والے کی طرح نہیں ہوسکتا جیسے صحن مکان میں سورج کی شعائیں براہ راست پڑتی ہیں اور صحن روشن ہوجاتا ہے ‘ پھر کمروں کے اندر یہ روشنی صحن کی روشنی کے ذریعہ سے پہنچتی ہے ‘ دونوں کی روشنی اور کیفیت انجلائی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ عطاء بن یسار کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے ملاقات کی اور کہا : رسول اللہ کے وہ اوصاف جو توریت میں (آپ نے پڑھے) ہوں ‘ بیان فرمائیے۔ حضرت عبد اللہ نے فرمایا : ہاں ‘ بخدا توریت میں آپ کے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں ‘ ان میں سے کچھ قرآن میں بھی موجود ہیں۔ توریت میں کہا گیا ہے : اے نبی ! ہم نے تجھ کو شاہد اور بشارت دہندہ اور عذاب کی وعید سنانے والا اور امیوں کی پناہ بنا کر بھیجا ہے ‘ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے ‘ میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے۔ وہ بدخو اور درشت مزاج نہ ہوگا ‘ بازاروں میں چیختا نہ پھرے گا ‘ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دے گا بلکہ عفو و درگذر سے کام لے گا۔ جب تک کج رو ملت کی کمی دور نہ ہوجائے گی ‘ اللہ اس کی روح قبض نہیں کرے گا ‘ اس کی وفات اس وقت ہوگی جب لوگ لا الہ الا اللہ کے قائل ہوجائیں گے۔ اللہ اس کے ذریعہ سے اندھی آنکھوں کو ‘ بہرے کانوں کو اور غلاف پوش دلوں کو کھول دے گا۔ رواہ البخاری۔ دارمی نے عطاء بن سلام کی روایت سے ایسا ہی بیان کیا ہے۔ بیہقی نے دلائل النبوت میں حضرت ربیع بن انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب آیت مَا اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلاَ بِکُم نازل ہوئی (مجھے نہیں معلوم کہ مرنے کے بعد میرے ساتھ کیا کیا جائے گا ‘ نہ مجھے یہ معلوم کہ تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا) اور اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی لِیَغْفِرَلَکَ اللہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَم وَمَا تَاَخَّرَ (تاکہ اللہ آپ کی گذشتہ اور آئندہ فروگذاشتوں کو بخش دے) تو کچھ مسلمانوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کو مبارک ہو ! جو سلوک آپ کے ساتھ کیا جائے گا ‘ وہ تو ہم کو معلوم ہوگیا لیکن یہ نہیں معلوم ہوا کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ اس پر آیت نازل ہوئی۔
Top